Maktaba Wahhabi

77 - 191
اگر یہاں ان رسمی اخلاقی اقدار کا احترام کیاجائے تو نہ مسئلہ سمجھ میں آئے گا اور نہ طالب اور سائل کی تسکین ہوگی۔ درس تدریس یامقدمات کو بھی جانے دیجیے بعض خانگی نزاعوں میں اس قسم کے تذکرے بعض اوقات ضرورت کے وقت اس سے زیادہ عُریاں طریق سےسامنے آتے ہیں وہاں اس کےسوا چارہ بھی نہیں ہوتااور وہ نزاع رفع نہیں ہوسکتی جب تک تھوڑی سی عُریانی استعمال نہ کی جائے۔ مساجد میں بعض اوقات لوگ طہارت کے مسائل دریافت کرنے آتے ہیں تو مسئلہ سمجھنے کے لیے عورتیں بھی مفتی کے سامنے کس قدر عریانی کے لیے مجبور ہوجاتی ہیں۔ ان تصریحات کے بعد ہم یہ گزارش کریں گے کہ ایک ہائی کورٹ کا جج اگر اسی عامیانہ انداز سے سوچنے لگے تو نہ صرف ہائی کورٹ کاوقار ختم ہوجائے گا بلکہ ماتحت عدالتیں آپ کے اس طرح کے محاکمات سے تنگ آجائیں گی۔ ماتحت عدالتیں تفتیش کے بعد بعض فیصلے کریں گے مگر آپ پُورے ناز سے فرمائیں گے کہ : میں باور نہیں کرسکتا کہ کسی عورت کا عدالتی بیان اتنا عریاں ہوسکتاہے۔ قرآن عزیز میں عُریانی :۔ بعض واجبی ضرورتوں کے پیش نظر قرآن عزیز نے بھی خاصا عریاں اندازبیان اختیار فرمایاہے۔ مثلاً علماء یہُود کی تہمت طرازی اور نصاریٰ کےغلو نے ایسی صورت پیدا کردی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کےمقام کو اس طرح نکھاراجائے کہ دونوں فریق اپنے اپنے مؤقف پر نظر ثانی کریں معاملہ اس قدر چھان پھٹک دیا جائے کہ ہرفریق کو اپنی غلطی کا احساس ہواور یہ عریانی کے سوا مشکل تھا چنانچہ ارشاد ہوا۔ وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا (66؍ 12) وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا (۲۱/۵۱)
Flag Counter