کیاہے کہ اگر میں غلط بیانی اور غلط گوئی کاعادی ہوتا توآج سے چالیس سال پہلے بھی غلط بیانی سےکام لیتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت قرآن میں :۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس کا ذخیرہ زیادہ تر احادیث میں ہے منکرین حدیث ممکن ہے اس ذخیرہ پر اعتمادنہ کریں اس لیےمناسب معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت قرآن سےتلاش کیاجائے تاکہ ایک قرآن کا طالب علم سمجھ سکے کہ جس شخص کی سیرت اس طرح روشن ہے آیا اس کا قول، فعل اور تقریر اور اجتہاد قابلِ اعتماد ہے یانہیں، خلط بحث سے بچنےکےلیے روایت اور رواۃ کا میں نے یہاں بالکل تذکرہ نہیں کیاکیونکہ حجیّت الگ بحث ہے اور طریقہ ٔ روایت اوررجال حدیث ایک الگ بحث۔ اگر راوی ضعیف ہے اس کی روایت کےمشتبہ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگر راوی جھوٹا ہے تواس کی روایت مسترد کردی جائے گی لیکن حجّیت حدیث پر اُن عوارض کاکوئی اثر نہیں ”حدیث بلحاظ روایت “ کےموضوع پر کسی دوسری صحبت میں گزارشات کی جائیں گی حجیّت حدیث کے مسئلہ میں عام اہل قرآن نے سند اور رجال کی بحث کوجس انداز سے گھسیٹنے کی کوشش کی ہے وہ دیانت داری پرمبنی نہیں ہے وہ صرف خلطِ مبحث ہے۔
۱۔ اٰمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ (۲۔ ۲۵۸)
رسول اور تمام اہلِ ایمان نے پیغمبر کی وحی کی تصدیق کی، یہ سب لوگ اللہ، رسول اور اس کی کتابوں اورفرشتوں پر یقین رکھتے ہیں، ہم اس کےرسولوں میں تفریق نہیں کرتے۔
اس آیت میں پیغمبر کوباقی تما م اہلِ ایمان کے ساتھ ایمان میں مساوی قرار دیاگیا ہے جس طرح عام لوگوں پر فرض ہے کہ پیغمبر کی وحی پر ایمان لائیں، پیغمبر پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنی وحی پریقین کرے اسی طرح خدا، رسول، ملائکہ اور آسمانی کتابوں پر ایمان لاناضروری
|