کرسکتےہیں ؟ وہ یقین فرماسکتےہیں کہ ان مواخذات میں کوئی لغزش نہیں ؟ یقیناً آپ ایسا فرمائیں گے توخدارا بتایاجائے کہ آپ ظن کوصدیوں کے ظن سے ٹکراکر ایک ظنی نتیجہ پر پہنچتے ہیں اور اسے”ہیرےکی جوت“ یارسول کی مزاج شناسی “سے تعبیر فرماتےہیں لیکن اگراصحاب وقت کے بروقت فیصلے اور صدیوں کی محنت کے نتائج پر اعتماد کیا جائے تواس کا نام آپ کی اصطلاح میں عصمت کا دعویٰ ہے۔ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ۔
متقدمین آئمہ کی تنقید اور دلائل پر کوئی یقین کرے تواس پر عصمت کی پھبتی اور آج اپنی معلومات کی روشنی میں صدیوں بعد کوئی ظنی فیصلہ ان قانونی فیصلوں کےخلاف آپ کریں تواس کانام ہیرے کی جوت۔ یہ جرأتیں آپ پرتنقید کرنےو الوں کے لیے بدگمانی کی راہ کھولتی ہیں ؎
فاحفظ وقیت فتحت قدمک ھوۃ
کم قدھویٰ فیھا من الانسان
وقت کی ضرورت :۔
ایسے وقت میں جب حدیث اور سنت کےخلاف لادینی حلقوں میں ایک طوفان بپاہے، اس قسم کی کمزور اور بےاصل باتیں کرنا مناسب نہیں۔ یہ وقت باہم خطا بات کی تقسیم کانہیں اور نہ ہی بحث سے اس طرح پہلوتہی کرنااس وقت قرین مصلحت ہے۔ یہ معذرت کا انداز اور چور دروازوں کی طرف رہنمائی نہ حدیث کی خدمت ہے نہ سنت کی حمایت۔ پچھلے دنوں مولانا مودُودی کی ایک دوبے محل تقریروں سےاخبارات میں کچھ ہنگامہ ہوا توہمارے بعض ”اہلحدیث“ دوست جواب جماعت اسلامی کے ہوچکے ہئں، مولانا کے نظریہ کی دیانۃً کھلی حمایت تونہ کرسکے مگر اس طرح پردہ پوشی فرمائی کہ ”پہلے علماء میں بھی بعض ایساکہتےتھے۔ “ بعض حضرات ”مزاج شناسی“ کےحوالوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ حالانکہ مناسب یہ تھا کہ مسلک اعتدال ایسی تحریروں سے مولانا کو بھی روکا جاتا۔ جماعتی تعلقات کا احترام بےشک کیا جائے لیکن حق کااحترام اور سنت کی حمایت وقت کی شدید ترین ضرورت ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر اندازنہیں ہوناچاہیے۔ دنیا میں اسلامی نظام بپاہونے کی بھی
|