توان مناظرہ بازیوں میں مشہورتھے۔ وہاں یہ سب کچھ فتح و شکست اور دفتری اقتدار کےلیے ہوتاتھا۔ ان حالات میں سخن سازی، غلط گوئی ہر چیز جائز سمجھی جاتی تھی تاکہ دربار میں اعزاز حاصل ہو۔ ایسے وقت میں پارٹی بازی لازمی ہے اور جھوٹ سے پرہیز ناممکن۔ فرد تو فرد ہے جماعتیں غلط بیانی کرتی ہیں، ا س ماحول میں خبر واحد پر اعتماد کون کرے اور کیوں کرے۔ ا س معاملہ میں معتزلہ اور متکلمین معذور ہیں۔
آئمہ حدیث کی بے نیازی :۔
آئمہ حدیث کاماحول اس سےبالکل مختلف تھادرباروں سے بے نیاز، بادشاہوں سے نفرت، ہرچیز اللہ کی رضا اور خدمت دین کے لیے، ابن قیم نے فرمایا: کل احد یعلم ان اھل الحدیث اصدق اھل الطوایف کماقال ابن المبارک وجدت الدین لاھل الحدیث والکلام للمعتزلة والکذب للرافضة والحیل لاھل الرای ”سب جانتےہیں کہ اہل حدیث بہت سچے ہیں۔ ا بن مبارک نےفرمایا، دین اہلحدیث کے پاس ہے، باتیں بنانامعتزلہ کےپاس، جھوٹ روافض کی عادت اور اہل الرائے جیلوں کے عادی ہیں۔ “
اس ماحول میں جہاں کوئی لالچ نہ ہو جھوٹ کیوں بولاجائے اور کون بولے؟ جو لوگ ان دونوں گرہوں کوبرابر سمجھیں انہیں اس اختلاف میں تطبیق دینےمیں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ انسان جیسے ماحول میں رہے اس کی نفسیات اسی سانچے میں ڈھل جاتی ہیں، ولنعم ماقیل عن المرء لا تسأل وسل عن قرينة۔
احادیث سے استفادہ :۔
اس عنوان کےتحت ترجمان القرآن ۱۴۰ سے ۱۴۵ تک مولانا اصلاحی ایسے متین اور صاحب ِ فکر کا قلم طنزیہ تعریضات کی طرف پھرگیا ہے ہے۔ اگرمولانا یہ اندازاختیار نہ فرماتے توہم بھی مولانا کے ارشادات پر ا ور زیادہ غور کرتے، اپنےنقائص اور نارسائیوں کےمتعلق ضرور سوچتے۔ اخبارات کےلب و لہجہ سےجوخلش مولانا کے ذہن میں تھی اس کاانتقام جماعت اور مسلک سے لینےکی کوشش فرمائی گئی۔ عفااللّٰہ عنا و عنه
|