تحکیم :۔
تحکیم بھی قضا کے قریب قریب ہے۔ اس میں بھی اسی طرح ظنیت موجود ہے۔ اگرحاجی کسی جانور کا شکار کر گزرے تو اس کے عوض اس طرح کا جانور دینےکےلیے فرمایاگیاہے۔
يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ ( المائدہ )
”ہدی کی مثلیت کا فیصلہ دوعادل آدمی کریں گے۔ “
یہ حکم یقیناً ظنی ہے۔ آیا یہ جانور بالکل شکار کی مثل ہے یانہیں ؟
خاوند اور بیوی کے باہم تنازعات کے متعلق فرمایاگیا۔
فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا(النساء )
”میاں بیوی دونوں فریق کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر کردیا جائے۔ اگر اصلاح کا ارادہ ہوگا تواللہ تعالیٰ اس کی توفیق مرحمت فرمائے گا۔“
اِنْ شرطیہ سے اس تحکیم کی ظنّیت ظاہر فرمادی گئی ہے اور ان مقامات میں تحکیم کا حکم قرآنِ عزیز نے شرعاً دیاہے۔ عمومی مصالح مفاسد ظن پر مبنی ہیں، معلوم نہیں منکرین حدیث کے کان میں کس نے کہہ دیاکہ ظن شرعاً مستند نہیں۔ اب ہم حافظ عزیز الدین عبدالعزیز بن عبدالسلام (۶۶۰ھ ) کی شہادت پر اس بحث کوختم کرتے ہیں۔ شیخ فرماتے ہیں۔
فصل فی بیان مَصَالِحِ الدَّارَيْنِ وَدَرْءِ مَفَاسِدِهِمَا]عَلَى الظُّنُونِ والِاعْتِمَادُ فِي جَلْبِ مُعْظَمِ مَصَالِحِ الدَّارَيْنِ وَدَرْءِ مَفَاسِدِهِمَا عَلَى مَا يَظْهَرُ فِي الظُّنُونِ. وَلِلدَّارَيْنِ مَصَالِحُ إذَا فَاتَتْ فَسَدَ أَمْرُهُمَا، وَمَفَاسِدُ إذَا تَحَقَّقَتْ هَلَكَ أَهْلُهُمَا، وَتَحْصِيلُ مُعْظَمِ هَذِهِ الْمَصَالِحِ بِتَعَاطِي أَسْبَابِهَا مَظْنُونٌ غَيْرُ مَقْطُوعٍ بِهِ؛ فَإِنَّ عُمَّالَ الْآخِرَة ِ لَا يَقْطَعُونَ بِحُسْنِ الْخَاتِمَةِ وَإِنَّمَا يَعْمَلُونَ بِنَاءً عَلَى حُسْنِ الظُّنُونِ، وَهُمْ مَعَ ذَلِكَ يَخَافُونَ أَلَّا يُقْبَلَ مِنْهُمْ مَا يَعْمَلُونَ، وَ
|