اس آیت کی تصریحات میں غور فرمائیے :
۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار کا حکم لوگوں کی معمولی اورمعتاد گفتگو سے مختلف ہے۔ (باہمی گفتگومیں ایک دوسرے کی مخالفت کی جاسکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ا س سے بالکل مختلف ہے )یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سےانکار کی کوئی گنجائش نہیں۔
۲۔ حیلوں بہانوں سے دوسروں کی آڑ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےاحکام کونظر اندز نہیں کیاجاسکتا بلکہ یہ منافقین کا طریق ہے۔
۳۔ جولوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےاحکام کی مخالفت کرتےہیں ( اُنہیں حجت نہیں سمجھتے) وہ عذاب الیم کے مستحق ہیں۔ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ کا لفظ مخالفین کے لیے ازبس غور طلب ہے۔
۶۔ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۲۷:۵۶)
نمازقائم کرو ا ور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو تم پررحم کیاجائے۔
فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ(۵۸:۱۳)
نمازقائم کرو اور زکوٰۃ اداکرو۔ ا للہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے کوب واقف ہے۔
ان دونوں آیات میں نماز اور زکوٰۃ کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض قرار دیاگیاہے۔ سورہ نور، سورہ احزاب، سورہ مجادله میں مقام رسالت او ر اس کی اطاعت کا ذکر کثرت سے آیا ہے اور اس کی تاکید کے لیے سلوبِ بیان میں عجیب حکیمانہ تصرف فرمایاہے۔ جس کی خوبی کا لفط وہی لوگ اٹھاسکتے ہیں جن کو عربی زبان سے کچھ تعلق ہے۔
سورۂ نور میں الرسُول کوبقید تعریف ذکر فرمایا ہے جس سے مراد صرف
|