Maktaba Wahhabi

119 - 191
۴)حرمت نکاح مع العمۃ والخالہ، ۵) حدیث حرمتِ رضاع مثل نسب، ۶)تعیین عشرہ مبشرہ وغیرہ احادیث کوامت نے عملاً قبول کرلیاہے، ابن تیمیہ فرماتےہیں ان سے متواتر ہی کی طرح یقین حاصل ہوتاہے۔ اماالسلف فلم یکن بینھم فی ذالک نزاع (ص ۳۷۳ج۲ صواعق) سلف میں اس کے متعلق کوئی نزاع تھی۔ بخاری اور مسلم کی احادیث کی صحت پر امت متفق ہے اورانہیں تلقی بالقبول کا مقام حاصل ہوا ہے۔ ابن الصلاح فرماتے ہیں لاتفاق الامة علی تلقی ما اتفقا علیه بالقبول و ھٰذا القسم جمیعه مقطوع بصحته والعلم الیقینی النظری واقع به ( ابن الصلاح ص۱۲) امت نےصحیحین کی متفقہ روایات کواجماعاً قبول فرمایا ان احادیث کی صحت قطعی ہے اس سے علم نظری اور یقینی حاصل ہوتا ہے۔ ہم مولانا اصلاحی کو قطعاً تکلیف نہیں دیتے کہ وُہ آئمہ حدیث کو معصوم سمجھیں لیکن امت کی عصمت پر توغورفرماناچاہیے، اُمّت کی تلقی آئمہ حدیث اور اہل حدیث کے نزدیک بےحد مضبوط قرینہ ہے، تلقی بالقبول اور احادیث صحیحین کے افادہ یقین کے متعلق دراسات اہلیت میں نہایت نفیس اور مبسوط بحث موجود ہے جسےطوالت کی وجہ سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اہل ِ تحقیق کے لیے وہ بحث بُہت مفید ہوگی۔ متاخرین میں مولاناسید انورشاہ رحمہ اللہ دقت نظر اور وسعتِ معلُومات میں یگانۂ روزگار تھے، بخاری کے حاشیہ میں فرماتے ہیں : حاصله انه یفید القطع اذااحتف بالقرائن کخبر الصحیحین علی السحیخ بید انه یکون نظریا و نسب الی احمد ان اخبار الاحاد تفید القطع مطلقا(ص۵۰۶)ج۴ فیض الباری ) ’’حاصل یہ ہے کہ خبرواحد میں اگر قرائن موجود ہوں تواس سے علم یقینی ونظری حاصل ہوگا امام احمد سے منقول ہے کہ اس سے قطعیت کا فائدہ حاصل ہوگا۔ “ دراصل یہ اختلاف قرائن کے قوت اور ضعف پرموقوف ہے۔ اس اختلاف کا پس منظر:۔ انسان ماحول کا غلام ہے، معتزلہ اور آئمہ کلام اور دُوسرے بدعتی گروہوں کا تعلق عموماً شاہی درباروں سے رہا۔ عباسی دربار
Flag Counter