Maktaba Wahhabi

157 - 191
وہ ایک خاص طریقِ فکر کی تخریجات ہیں جن کی غیر معقولیت جماعت اسلامی کے حلقوں میں بھی مسلّم ہے۔ حال ہی میں مولانا اصلاحی کا ایک پُرمغز مقالہ زکوٰۃ کی تملیک کےمتعلق شائع ہوا جس میں احناف کےمسلک پرکھلی اور کڑی تنقید فرمائی گئی تھی اور مولانا مُودودی نے بھی اپنے رسالہ پردہ میں بعض فقہی مسائل پر بڑی بے لاگ تنقید کی تو یہ خیال ہمارے اور آپ کے حلقوں میں مسلم ہے۔ اس لیے بحث میں آپ حضرات کا قت ضائع کرنا مناسب نہیں۔ اصل نزاع :۔ بحث اس میں نہیں کہ فہم اور تنقید حدیث میں محدثین کےنزدیک عقل اور درایت کودخل ہے یانہیں کیونکہ پورے دین کا خطاب عقلمندوں سے ہے بلکہ بحث اس میں ہے کہ آیا ہر مدعی عقل کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ کتاب وسنت کو اپنی عقل کی سان پر رکھ کر پرکھناشروع کردے اور جوحکم اس معیار پر پورا نہ اترسکے اس کا انکارکردیاجائے یا اسے مآخذ کےلیے تعصب سے تعبیر فرماکر حقارت کی نگاہ سے ٹھکرادیاجائے، آیا عقل ودرایت کو احادیث اور سنت کے اس قتلِ عام کی اجازت ہونی چاہیے ؟ ائمہ حدیث اور آج کے گنہگار اہلحدیث اس کےمخالف ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے، الفاظ کی تعبیر میں تنوع اور اسالیب کلام میں ہیرا پھیری سے حقائق نہیں بدل سکتے۔ جدید قیادتوں کے طرقِ فکر اور اہلحدیث کے طریق فکر میں بیّن اور کھلااختلاف ہے، قدم اٹھانے سے پہلے پوری طرح سوچنا چاہیے اور جدید نظریات کے احتساب سے گھبرانا نہیں چاہیے، مسائل چھان پھٹک اور بحث ونظر سے حل ہوتے ہیں، زبان درازی سے نہیں، میری رائے میں مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کےنظریات نہ صرف مسلکِ اہلحدیث کےخلاف ہیں بلکہ یہ نظریات تمام آئمہ حدیث کے بھی خلاف ہیں۔ ان میں آج کے جدید اعتزال وتجہم کےجراثیم مخفی ہیں۔ آخری گزارش مولانا نے سائل کا جواب نمبروار دیاہے میں نے ضروری مباحث کو لے لیاہے اور اپنےمسلک کی حسبِ ضرورت وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ نمبر6، 7کے
Flag Counter