Maktaba Wahhabi

196 - 191
ہے تاکہ اس کی زندگی معاشرہ میں اجنبی اور عجوبہ تصور نہ کی جائے لیکن یہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آزاد نہیں چھوڑاگیا۔ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔ ایک سیاسی نوعیّت کا واقعہ :۔ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ(۸۔ ۴۸) اس آیت کامفہوم یہ ہے کہ اگر پیغمبر کے پاس قیدی آجائیں تو انہیں موت کے گھاٹ اتاردینا چاہیے یہاں کوئی دنیوی مفاد پیش نظر رکھنامناسب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کےمُطابق صرف آخرت کی بہتری مطلوب ہونی چاہیے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مُعاملہ پہلے سے طے نہ ہوچکا ہوتا توتمہیں بڑی سخت اذیت اورتکلیف سے تمہیں سابقہ پیش آجاتا۔ بدرکی جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ قیدی آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہما سے مشورہ کے بعد ان سے فدیہ لےکر اُنہیں چھوڑنے کا فیصلہ فرمادیا، مجلس شوریٰ کی اکثریت اسی فیصلے کےحق میں تھی خود قرآن کاجنگی قانون اس فیصلہ کی تائیدمیں تھا فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً دونوں اختیار موجود تھےلیکن بدر کے قیدیوں کےمتعلق مصلحتِ خداوندی کا تقاضا اس اختیار کےخلاف تھا اور آئمۃ الکفر کو اس رخصت کا فائدہ دینا ناپسند تھا۔ اس لیے مجلس شوریٰ کے اس جمہوری فیصلے کو ناپسند کیاگیالیکن مسترد نہیں فرمایا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کےرفقاء محتاط رہیں، جنگی معاملات میں ایسے فیصلے روزمرہ کا معمول ہے اور برسرپیکار قومیں اس قسم کےفیصلے عموماً اپنی صوابدید سے کیاکرتی ہیں لیکن یہ فیصلہ باوجودیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل جمہوری طریق پر کیاتاہم ناپسند فرمایاگیا اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء عام متحارب قوموں کی طرح آزاد نہیں چھوڑے گئے۔ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ۔ تیسراواقعہ :۔ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن ان کے لیے استغفار بے سُود ہے آپ ستر دفعہ بھی ان کے لیے استغفار
Flag Counter