Maktaba Wahhabi

85 - 191
اگر قانون کےتحفظ کے لیے کوئی دلیل مل گئی تو اُمید ہے بلکہ یقین ہے وُہ دلیل قرآن وسُنّت کی تشریح کے لیے بھی کار آمد ثابت ہوگی۔ اسی طرح اگریہ صحیح مان لیاجائےکہ بدلتے ہوئے حالات میں مستقل قانون قبُول نہیں کیاجاسکتا اس لیے قرآن کوبھی کسی وقت آپ کے سامنے سر بسجود ہوناہوگا۔ توپھریہ فرمایا جائے کہ وحی الٰہی اور خدا کے علم کے التواء اور ذات حق کی ہمہ دانی کا مطلب کیارہا ؟ انسانی قوانین اورالٰہی قوانین میں مابہ الامتیاز کیاٹھہرا؟اس پر اس کےسوا ہم کیا عرض کرسکتےہیں کہ۔ ۔ ایاز! قدرخویش بشناس۔ منکرین سُنّت اور معترض ”مفکرین“سے :۔ منکرین سُنّت اورحدیث پر اعتراض کرنے و الے حضرات سے گزارش ہے کہ فن حدیث کی حیثیت اتھاہ سمندرکی ہے۔ اُمّت نے تقریباً تیرہ سوسال اس کی خدمت کی ہے اور مختلف راہوں سے کی ہے۔ ابن صلاح کی علوم الحدیث اور حاکم کی معرفت علوم الحدیث پر نظر ڈالئے۔ آپ کو اس فن کی خدمت میں تنوع نظر آئے گا اورحافظ بغدادی کی الکفایہ میں بھی علوم ِ حدیث کاکافی مواد ہے۔ ان تنوع خدمات ِ حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ صدیوں کی عقیدت مندانہ خدمات اس کی پُشت پرہیں۔ اس بلندی سے اسے نیچے لانے کے لیے فنی قابلیت ضُروری ہے۔ اس کی باریکیوں اور نزاکتوں پر نظر رکھے بغیر تنقید کرنا خفت کا موجب ہوگا۔ آپ حضرات نے یہ شیوہ بنارکھا ہے کہ ساری عمر انگریزی قانون اور انگریزی زبان پڑھتےہیں پھر ملامت کرتے ہیں، پھر ریٹائر ہوتے ہیں اوریہ آخری فرصت کی گھڑیاں جو آپ کو عبادت کے لیے قدرت نے عطا کی ہیں اُن کوسنت پر اعتراض اور بحث کرنے میں صرف کرتے ہیں اور اہل فن کی نظر میں مضحکہ بنتےہیں۔ یاپھر اُونچی کرسیوں سے اس تشریف فن پر حملہ آور ہوتےہیں حالانکہ آپ ایک خاص قانون کے ماہر ہی علوم الحدیث سے واقف نہیں۔ کرسی کی آڑمیں یہ شکار
Flag Counter