Maktaba Wahhabi

151 - 191
تھا، فقہ ان کااصل موضوع نہ تھا۔ الخ ( مسلک ِ اعتدال ۳۱۹؃) مولانا اصلاحی مدظلہ تنقید ِ حدیث کے منصب کو اور بھی کھلا رکھنے کی کوشش فرماتےہیں، ملاحظہ ہو:۔ ”وہ (نقاد حدیث ) اخلاقی اعتبار سے بھی اتنا بلند ہو کہ اس نے دین بازی کو اپنامشغلہ بنارکھا، وہ حدیث پر نقد و تبصرہ کا اہل ہو۔ یہ منصب زہر ملائے مکتبی کا ہوسکتاہے نہ دفتر کے کلرکوں کا “۔ ( ترجمان جلد۴۵عدد۲ ۱۴۸؃) پھر فرماتےہیں، مشائخ کی اسانید رسمی علوم کی تحصیل، مدارس کی تعلیم سے بھی یہ اہلیت حاصل نہیں ہوتی کہ حدیث پر تنقید کرسکے بلکہ : ”میرے نزدیک آدمی کےعلم وفضل کی بہترین سندا ور بہترین شہادت اس کے اپنے کارنامے اور اس کی دینی خدمات ہیں۔ “ اصولاً کارناموں کی اہمیت سے انکارنہیں لیکن اس معیار کےخطرات کومولانا نے محسوس نہیں فرمایا۔ مرزاغلام احمد، عنایت اللہ خاں المشرقی اور پرویزؔ وغیرہ حضرات تنقید کا حق اور حدیث کے رد وقبُول میں حکم کی حیثیت اپنے کارناموں ہی کی بنا پر منواناچاہتے ہیں۔ آپ رسمی علوم اور مشائخ کی اسانید کونظر انداز فرماکر بعض اعتراضات سےبچ گئے ہیں مگرکارناموں اور خدمات کےعموم سے ایک دوسری مُصیبت کی ذمہ داری آپ نے اپنے سر لے لی ہے۔ یہ آوارہ مزاج حضرات ”کارناموں اور خدمات“کواس طرح پھیلائیں گے کہ عوام کو ان کی گرفت سےبچانامشکل ہوگا۔ مودودی صاحب کو بچاکر سارے فن کومُصیبت میں ڈالنا مناسب نہ ہوگا۔ حفظت شیئاً وغابت عنک اشیاء۔ ’’معیار اگر کارنامے اورخدمات “ ٹھہراتوان کی نوعیت ہر پانچ دس سال بعد ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ خدمات اور کارنامے :۔ خدمات اور کارنامے اگر حدیث پر تنقید کا معیار قرار دیے جائیں توان کے لیے کوئی پابندی ہونی چاہیے۔ ہمارے آخری دَور میں نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ، مولانا عبدالحی
Flag Counter