حدیث کا کُھلا انکار چودھویں صدی میں :۔
مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے شخص ہیں جنہوں نے علوم سُنت کی کھلی مخالفت کی۔ انہیں رسولوں کی اطاعت کا ذکر کھٹکتا رہا۔ انہوں نے رسول کے معنی قرآن کر کے اس اطاعت سے مخلصی چاہی لیکن قرآن اس اطاعت سے بھرا پڑا ہے۔ سورۂ شعراء میں تقریباً دس جگہ یہ فقرہ دہرایاگیاہے۔’’فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ“اللہ تعالیٰ سےڈرو اور میری اطاعت کرو۔ “
گویایہ اطاعت اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے ہم پایہ چیز ہے۔
آل ِ عمران میں فرمایا : وَجِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ
”اللہ تعالیٰ سےڈرو اور میری اطاعت کرو۔ “
قرآن عزیز میں مختلف مقامات پر قریب قریب چالیس جگہ رسول کی اطاعت کاذکر مختلف اندازسے آیاہے ایک موٹی سمجھ کا آدمی سوچتا ہے کہ ہر جگہ اس کی تعبیر رسول ہی سے فرمائی گئی ہے کہیں بھی اصلی لفظ سے تعبیر نہیں کیاگیاحالانکہ کسی جگہ اپنے موقع پر قرآن، فرقان اور کتاب کا ذکر آیاہے۔ پھر اس کی تعبیر سے ہر ہر جگہ گریز کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول کے لفظ سے اُس داعی کوتعبیر کیاگیا ہے جو اس دعوت کو لے کر آیا اور ہر زمانے میں اپنی دعوت اور اپنی اس حیثیت کو مستقل طور پر پیش کیاہے اس لیے مولوی عبداللہ اور ان کے اتباع اور ہم مشرب حضرات کی ان توجیہات میں کوئی معقولیت معلوم نہیں ہوتی اور الرسُول کی شخصیت کو نظر انداز کرنے کے بعد ساراکارخانہ اور دیانت کا یہ معمل پورے کا پورا غارت ہوجاتاہے۔
قرآن اورا س کاتواتر:۔
ہم نے پہلے عرض کیاکہ قرآن کے ہم تک پہنچنے میں تواتر پایاجاتاہے۔ اس میں سندکے مباحث کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر یہ تواتر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام پر اکیلے ہیں۔
سنت اور اس سے عقیدت رکھنےو الے لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی بشریت اور اس کے لوازم
|