تھااور عقل ناتمام تھی، کذب کا نام سن کر تشویش ہوتی تھی۔ اساتذہ اور رفقاء سے بحث ہوتی رہی لیکن جب تک تجربہ کی زندگی میں قدم رکھا۔ عمل نے تمام شبہات دور کردیے۔ تعریض اورتوریہ کوعملی دُنیا کےماحول پر محیط پایا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا نے بوقت ضُرورت اسے استعمال فرمایا، صلحاء کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پس ہماری ”عقل عام“کوتواس حدیث سے کوئی کھٹکا محسوس نہیں ہوتا، بلکہ دین کی تکمیل پرمزید یقین ہوتاہے کہ اس میں اس زاویہ کےلیے بھی رہنمائی کاسامان موجود ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تھپڑ :۔
اس عنوان پر کچھ عرض کرنے سے قبل مولانا اور ان جیسے ”محققین “کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ مسئلہ بھی کچھ آج نہیں چھڑا، تیسری صدی ہجری میں ”درایت“ کے ہیرو حضرات معتزلہ اس حدیث کو بھی مشکوک بنانے کی کوشش میں مصروف تھےاورحدیث پاک کے محافظ اللہ تعالیٰ نے محدثین کو توفیق دی کہ وہ اس حدیث کا صحیح مطلب بتاکر ان لوگوں کے دانت کھٹے کردیں۔ چُنانچہ اس زمانے کے جن محدثین نے اس حدیث کا جواب دیا، اُن میں مشہور محدث حافظ ابو حاتم محمد بن حبان ( المتوفی ۳۵۴ھ ) بھی ہیں۔ آپ نے اپنی صحیح میں یہ عنوان قائم کیاہے۔ ” ذکرخبرشنع به علی منتحلی سنن المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم من حر م التوفیق لادراک معناہ“ یعنی اس حدیث کا ذکر جس کو ان لوگوں نے جواس کےمعنی کی حقیقت تک پہنچنے سےمحروم ہیں، محدثین پر طعن کا ذریعہ بنالیا ہے۔
پھرحضرت موسیٰ علیہ السلام کےاسی لطمہ والی حدیث کوذکر کرکےلکھتےہیں :۔
"إن اللّٰه جلا وعلا بعث رسوله -صلى الله عليه وسلم- معلما لخلقه فأنزله موضع الإبانة عن مراده فبلغ -صلى اللّٰه عليه وسلم- رسالته وبيَّن عن آياته بألفاظ مجملة ومفصلة، عقلها عنه أصحابه أو بعضهم. وهذا الخبر من الأخبار التي يدرك معناه من لم يحرم التوفيق لإصابة الحق؛ وذاك
|