Maktaba Wahhabi

67 - 191
ان دونوں میں بین فرق ہے۔ قانونی حکومت جمہُوری ہویاشخصی اس کے احکام کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور دینی حکومُت اپنی مادی طاقت سے احکام کا نفاذ کرتی ہے۔ و ُہ بذات خود احکام کی تخلیق نہیں کرسکتی۔ حتّی ٰ کہ پیغمبر اپنی اطاعت اور اپنی مُستقل حیثیت کے باوجود اطاعت الٰہی کی ترجمانی کرتاہے۔ مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ۔ رسول کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہےاس لحاظ سے یہ مرکز ملّت ایک ایسی ذوالوجوہ مخلوق ہے جس کے خمیر میں نہ دین ہے نہ سیاست اس کے باوجود وہ دونوں پر مسلط ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ۹۔ پھر یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس نئی اصطلاح سے حاصل کیاہوا؟ اس نظام کی ضرورت کیوں ہو؟ اگر یہ دینی نظام ہےتو اسےخلافت یاامارت کہے۔ اور اگر یہ فقہی کوشش ہے تو اسے اجتہاد کہے۔ ا سے ملّت کی مرکز یت تو کسی طرح بھی میسر نہیں آسکتی محض اصطلاحات اور الفاظ کی ہیرا پھیری سے ملت میں اختلاف کرنا ایک مجرمانہ کوشش ہے۔ ایسی قیادت کسی اعزاز کی مستحق نہیں جو محض اختلاف بین المسلمین کے سہارے پر زندہ ہیں۔ اجتماعی اجتہاد :۔ مرکز ملّت کا جو تاثر مختلف اوقات میں دیاگیا ہے اس پر نہ ذہن مطمئن ہوتا ہے نہ ہی کوئی حقیقت ذہن میں اُترتی ہے۔ ا لبتہ اجتہاد کی ا جتماعیت ذہن کومتاثر کرتی ہے۔ ا نفرادی حیثیت سے ممکن ہے اجتماعی طریق زیادہ مفید ثابت ہو۔ مختلف علوم کے ماہر اگر ایک جگہ سرجوڑ کر سوچیں تو غالب خیال ہے کہ مختلف مصالح اور اس کے بالمقابل مضرتوں پر زیادہ سنجیدگی سے غور ہوسکے لیکن اگر اس کے ساتھ انتخاب کی پچر لگادی گئی تواس کی ساری افادیت ختم ہوجائے گی۔ بیچارے مجتہد یاالیکشن لڑیں گے یا اجتہاد کریں گے اگر خدانخواستہ انتخابات کا اندازبھی یہی رہا جو انگریزی دور حُکومت کی یادگار ہے توحضرت المجتہد مع اجتہاد انتخابات میں رہن کی نظر ہوجائیں گے یا پھر باقی مدت قرض ادا کرتے رہیں گے۔
Flag Counter