دوسری صدی:۔
پہلی صدی کے اواخر میں اموی سلطنت کا چراغ گُل ہوگیا اور اموی حکومت کا پھر یرا ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہوگیا۔ چند سال آئمہ حدیث کی نقل و حرکت پر سیاسی خلفشار کی وجہ سے پابندی رہی اور علم کے یہ خزانے اپنےاپنے علاقوں تک محدود رہے، کوفہ، بصرہ، بغداد، خراسان، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، نجد، یمن اور مصر وغیرہ مختلف علاقوں کے علماء اپنے علاقوں میں درس حدیث دیتے رہے۔ ا ن علاقوں میں جوصحابہ رضوان اللہ اجمعین اقامت پذیر تھے ان کے علوم اور دُروسں کی اشاعت اس علاقہ ہی میں ہوتی رہی اور حفظ وکتابت حدیث کا سلسلہ ان علاقوں میں اپنی بساط کے مطابق بدستور جاری رہا۔ اموی، ہاشمی، ا ور عباسی قسمت آزما پوری قوت سے نبردآزماتھےا ور اکھاڑپچھاڑ کی تند و تیز ہوائیں پُورے زور سے چل رہی تھیں اور سازشی پُورے سکون سے اپنے مدارس میں حدیث کے حفظ وجمع میں مشغول تھے۔ اگر کسی سر پھرے بادشاہ کو کسی عالم پر بدگمانی ہوئی تواسے اس نے جیل میں ڈال دیا۔ جب ظلم نے اپنا نصاب پورا کرلیا۔ قید کی مدت ختم ہوگئی تو جیل سے نکل کر اپنے مدرسہ میں آگئے اور علم و دین کی خدمت میں مشغول ہوگئے۔ کوئی عملی قدم ان متحارب فریقوں کےموافق یاخلاف نہیں اٹھایا۔ بدگمانیاں محض اظہار خیال یا رجحان طبع کی وجہ سے ہوئیں حالانکہ سازشیں ایسے ہی اوقات کی منتظر ہوتی ہیں۔ دشمن پر حملہ کرنے کا بہترین وقت وہی ہوتا ہے جب دشمن دُوسری طرف مشغول ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق سیاسی دلچسپی کےبعض واقعات تاریخ کی زبان پر آتے ہیں لیکن ان میں فارس کا یہ عظیم الشان سازش ہاشمی اور عربی حکومت کا حامی تھا۔
آپ اس دور کی تاریخ پڑھ جائیے۔ آپ کو اہل علم پر حکومت کی چیرہ دستیوں کے واقعات توخال خال ملیں گے لیکن ان علماء نے حُکومت کےخلاف کوئی محاذ قائم کیاہو۔ اس سے تاریخ ساکت ہے۔ سازش کی پوری مسل طلوع اسلام کےد فتر اور علامہ جیراج پوری کے دولت کدہ میں بنی اور وہیں دھری کی دھری رہ گئی اور شاید اس
|