تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ(۹۔ ۸۰)وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ (۹۔ ۸۴)
فرمائیں ان کو بخشانہیں جائے گا کیوں کہ یہ خدا اور رسول کےمنکر ہیں اور ایسے مصیبت کیش لوگوں کے لیے بخشش کی راہیں نہیں کھل سکتیں اگر یہ منافق مرجائیں توان پر نمازمت پڑھو اور نہ ان کی قبر پر ٹھہرو یہ اللہ اور اس کےرسول کے منکرہیں اور اسی فسق وفجور پر ان کی موت واقع ہوئی ہے۔
کسی کی موت پردُعا کرنا یااس کی قبر پر جانا معاشرتی مُعاملات میں سے ایک معمُول ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی معمول کےمُطابق بعض منافقین پر نوازش فرمائی اس پر ارشاد ہواکہ فاسق مزاج اور معصیت پیشہ لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوناچاہیے شہری زندگی میں کسی کے جنازے پر جانا یا تعزیت کرنامعمولی بات ہے بلکہ تبلیغی مصالح کے لیے ایک حدتک جاذب بھی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی کو منافقین کی حد تک اس اخلاقی رعایت سے بھی روک دیاگیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےیومیہ معمولات پر کس قدر نظر رکھی گئی تھی۔
چوتھاواقعہ :۔
ڈسپلن اور نظم فوجی زندگی کی رُوح ہےلیکن اس کا تمام ترتعلق محکمانہ ہوتاہے ایسے مُعاملات میں خارجی مداخلت نظم کےمنافی سمجھی جاتی ہے غزوہ ٔ تبوک سے کچھ لوگ پیچھے رہ گئے ان میں اکثر منافق تھے ان کو یقین تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس جنگ سے بخیریت واپس نہیں لوٹیں گے کیونکہ ایک مضبُوط اور باقاعدہ جنگی قوت سے تصادم ہوگا اوران کےخیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کی جنگی استعداد ان سے ٹکر لینے کےقابل نہ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے بخیریت واپس آئے اور منافقین کےخیالات غلط ثابت ہوئے تومنافقین نے اپنی غیرحاضری کے متعلق غلط عذر تراشنے شروع کئے قسمیں کھائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ
|