اور موقوفاتِ صحابہ اور ان کے فتاوی ٰ وغیرہ سب ہوتے ہیں تکرار ِ سند سے جب ایک متن بار بار مروی ہوتواسے وہ متعدد احادیث تصوّر فرماتےہیں۔ “
اس کے بعد فرماتے ہیں:
قِيلَ: وَيُؤَيِّدُ أَنَّ هَذَا هُوَ الْمُرَادُ، أَنَّ الْأَحَادِيثَ الصِّحَاحَ الَّتِي بَيْنَ أَظْهُرِنَا - بَلْ وَغَيْرَ الصِّحَاحِ - لَوْ تُتُبِّعَتْ مِنَ الْمَسَانِيدِ وَالْجَوَامِعِ وَالسُّنَنِ وَالْأَجْزَاءِ وَغَيْرِهَا لَمَا بَلَغَتْ مِائَةَ أَلْفٍ بِلَا تَكْرَارٍ، بَلْ وَلَا خَمْسِينَ أَلْفًا، (ص۲۹)
یعنی” اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ جو احادیث اس وقت ہمارے پاس موجود ہیں اُنہیں سنن اجزاء جوامع وغیرہ میں اگر پوری طرح تلاش کیاجائے توان کی تعداد صحیح اور غیرصحیح لاکربھی پچاس ہزارتک نہیں پہنچتی “ (ص ۵۱)
ایک اور شبہ کاحل:۔
یہ شبہ کہ محدثین کےمخصوص شرائط کے ماتحت باقی جوکچھ بچاوہ سب غلط ہے یہ بھی لاعلمی اور جہالت کی کرشمہ سازی ہے امام بخاری رحمہ اللہ خود فرماتےہیں:
ماترکت من الصحاح اکثر ( تدریب ص۲۹)
”صحیح بخاری سےجوروایات متروک اور نظر انداز ہوئی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ “ اھ۔
صحیح بخار ی یاصحیح مسلم کا انتخاب مخصوص شرائط کے ماتحت ہواہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سوا باقی سب احادیث غلط ہیں بلکہ ائمہ حدیث تصنیف وتدوینِ کتب کے وقت بعض شرائط ذہن میں رکھتےتھے۔ ان شرائط کےتحت جوصحیح احادیث ان کے معیارپر ان کی نظر میں پوری اتریں انہیں وہاں جمع کردیا یہ بھی ممکن ہے کہ ان شرائط کےمُطابق بھی کہیں ذہول ہوگیا ہو۔ مثلاً امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں اپنی شرط یہ بتائی ہے۔
إِنَّمَا وَضَعْتُ هَا هُنَا مَا أَجْمَعُوا عَلَيْهِ
|