سکیں۔ اس لیے یہ مقدارِ قابل اعتماد اور صحیح احادیث کی نہیں ہوسکتی۔
دوم یہ کہ تدوین شدہ کتب میں احادیث کی تعدادبمشکل ہزاروں تک پہنچتی ہے اس لیے اس تعداد کے علاوہ باقی سب موضوعات میں بخاری میں مع مکررات تقریباً سات ہزار احادیث ہیں لیکن مکررات کےعلاوہ احایث کی تعداد قریب قریب چار ہزار ہے۔ اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح کوکئی لاکھ احادیث سے انتخاب فرمایا۔
اس فن سے بےخبر شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان ائمہ نے جواحادیث ترک کی ہیں اور ان کتابوں میں ان کا ذکر نہیں آیا وُہ سب غلط ہیں اور موضُوع۔ تقریباً اسی قسم کےخیالات کا اظہار جسٹس محمد شفیع صاحب نے اپنے اُس فیصلہ میں فرمایا ہے جوانہوں نے حضانت کے متعلق کیا(بحوالہ منصب رسالت نمبر ۲۶۶)
یہ دونوں شبہات قلّت مطالعہ اور لاعلمی پر مبنی ہیں۔ محدثین علی الاطلاق احادیث کی تعداد کا ذکر کرتے ہیں تو اس وقت وہ حدیث کوعام معنیٰ میں لیتے ہیں یعنی مرفوع موقوف آثار، تعداد اسانید اور احادیث کے متعدد طرق حتّیٰ کہ محدثین کی تفاسیر میں آئمہ سلف سے ان الفاظ کےمفہوم میں جو مختلف اقوال منقول ہیں ان کو بھی وہ حدیث ہی تعبیر فرماتے ہیں بلکہ صرف ضعیف اور موضوعات پر حدیث کا لفظ تو بولا ہی جاتا ہے۔ اس عام معنیٰ کی رو سے حدیث کی تعداد واقعی لاکھوں تک جا پہنچتی ہے لیکن موضوعات کو الگ کیا جائے اور تکرار اسانید کو بھی نظر انداز کیا جائے تواحادیث کی صحیح تعدادپچاس ہزا ربھی نہیں ہوپاتی۔ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
قَالَ الْعِرَاقِيُّ: فِي هَذَا الْكَلَامِ نَظَرٌ. لِقَوْلِ الْبُخَارِيِّ: أَحْفَظُ مِائَةَ أَلْفِ حَدِيثٍ صَحِيحٍ وَمِائَتَيْ أَلْفِ حَدِيثٍ غَيْرِ صَحِيحٍ، قَالَ: وَلَعَلَّ الْبُخَارِيَّ أَرَادَ بِالْأَحَادِيثِ الْمُكَرَّرَةِ الْأَسَانِيدَ وَالْمَوْقُوفَاتِ، فَرُبَّمَا عَدَّ الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ الْمَرْوِيَّ بِإِسْنَادَيْنِ حَدِيثَيْنِ. اھ ( تدریب الراوی ص۲۹)
یعنی امام بخاری جب لاکھوں احادیث کا ذکر فرماتے ہیں توان کی مراد مکرر اسانید
|