جذبات میں آج بھی دکھ اور قلق موجود ہے۔ افسوس ہے کہ اتنی پوزیشن کے لوگ کس بے پروائی سے سنت کےمتعلق جومنہ میں آئے کہہ جاتے ہیں۔ اس وقت اگر کوئی ناخوشگوار لفظ قلم سےنکلا توصمیمِ قلب سے اس کے لیے معذرت چاہتاہوں۔ مقصد طعن وتشنیع نہیں۔ اس دورِ فتن میں سنت اور علوم ِ نبویہ کےخلاف ایسے الفاظ فی الواقع ناگوار ہیں۔ مولانا پر طنز قطعاً مقصودنہیں۔ سنت کے ساتھ محبت اور قلب کا سنتِ رسول سے ربط ان پریشان خیالات کے اظہار کا موجب ہوا؎
گفتگوئے عاشقاں دربابِ رب
جذبۂ عشق است نے ترک ادب
مولانا کے ارشادات کے بعض حصص اور مودودی صاحب کا ”مسلک اعتدال“ قطعاً اس قابل نہیں کہ ان کی اشاعت کی جائے، ا ن میں جو کچھ صحیح ہے وُہ بھی غلط انداز سے کہا گیاہے اور مسلک اعتدال میں تودماغ کے کباڑخانہ نےخیالات اس بے اعتدالی سے اُگل دیے ہیں کہ اگر کوئی منکرِ حدیث بھی لکھتا تویہی کچھ لکھتا۔
آئمہ حدیث کےمناقشات:۔
مولانانے محدثین کےباہمی مناقشات کواہلِ قرآن سےبھی زیادہ نمایاں فرمایاہے اور اس اندازسے فرمایاہے کہ شاید مولاناملت کوکوئی عجیب اور نئی چیز عنایت فرمارہےہیں۔ مولانا غور فرمائیں یہ انسانی مزاج کی ایک کمزوری ہے، فن رجال کو چھوڑئیے، کوئی فن اس سے خالی نہیں۔ شعر وسخن، ادب، نحو اور قواعد، معانی، بیان ِ فقہ اور اُصول فقہ کس فن میں یہ مناقشات نہیں ؟ بقول جناب آئمہ تفسیر میں بھی یہ کمزوری موجُود ہے اور آپ کی جماعت اور علماء مناقشات بھی اس کی ایک کڑی ہیں توکیا اس بناء پر آپ اور تمام علماء کے افادات سے دست بردار ہوجاناچاہیے ؟ جب علمِ رجال وضع ہواہے اس قسم کاذخیرہ موجُود ہے اور اس کے باوجود ا س میں حق وباطل کا امتیاز غیر مشتبہ طور پر کیاجاسکتاہے اور کیا گیا ہے۔ پھر اس بےضرورت مواد کوحدیث کےدفاع کے موقع پرذکر کرنےکی کیوں ضرورت محسوس ہوئی ؟ جہاں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکچھ کہنے کا موقع
|