کیاہو، ۴)امت نےا س التزام کو درست تسلیم کیاہو، ۵)اہل علم نے ان کتب کی خدمت کی ہو، شرحیں لکھی ہوں، لغات کو حل کیاہو، رجال کو منضبط کیاہو، مقدمات وحواشی لکھے ہوں، غرض اعتماد کی نظرسے دیکھا ہویا ۶) واحد عن واحد منقول ہواوراس میں شرائط صحت پائی جائیں یااُمّت نےعملاً اُسے قبول کرلیاہو، رواۃ کی ثقاہت معلوم ہو، ان حالات میں اس سے بھی یقین حاصل ہوگااور اس پر عمل بھی واجب ہوگا۔ علامہ آمدی نے خبرواحد کے متعلق بہت بسط سے لکھاہے لیکن اہل ظاہر اور اہل حدیث کےمسلک کاذکر بہت اجمال سے فرمایاہے۔ الاحکام فی اصول الاحکام ابن حزم، صواعق مرسلہ علی الجہمیہ والمعطلہ میں دونوں مسلک تفصیل سے مرقوم ہیں، اسی سے ا ہل حدیث کا مسلک پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔
والقسم الثانی من الاخبار مانقله الواحدمن الواحد فھذااذااتصل بروایة العدول الیٰ رسول اللّٰہ صلی اللّہ علیہ وسلم وجب العمل بہ و وجب العلم بصحته ایضا (الاحکام۔ ج۱ص۱۰۸)
’’جب ایک راوی دوسرے سے ا تصال کے ساتھ نقل کرے اور یہ عادل ہوں تواس پر عمل بھی واجب ہے۔ ا ور اس کی صحت پریقین بھی ضروری ہوگا۔ “ دوسرے مقام پرمرقوم ہے فصح بھذااجماع الامة کلھا علیٰ قبول خبر الواحد الثقة عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الاحکام ج۱ص۱۱۴)۔ “خبرواحد صحیح کے قبول پر پوری امت کا اجماع ہے پھر ج۱ص۱۱۸میں فرمایا:وقد ثبت عن ابی حنیفة ومالک والشافعی واحمد وداؤد رضی اللّٰہ عنہم وجوب القول بخبر والواحد۔ (احکام) آئمہ اربعہ اور داؤد ظاہری سب خبرواحد کے قبول پرمتفق ہیں اور یہ ان کے اتباع پرحجت ہے۔ [1]
متاخرین فقہاء :۔ ابن حزم متقدمین آئمہ کے اجماع کا ذکر فرمانے کے بعد متاخرین فقہاء کا ذکر فرماتے ہیں جو معتزلہ اور متکلمین سے متاثر ہوکر مشکوک نظروں سے دیکھنےلگےتھے اور جنہوں نے ظن مصطلح کوحدودِ علم سے باہر سمجھا۔ امام نے دواصول
|