۲)اہل بدعت کی روایت کےمتعلق ائمہ میں اختلاف تھا۔ بعض نے اس کی روایت کو مطلقا رد کیا۔ بعض نے بلاشرط قبول فرمایا بالآخر یہی رائے قائم ہوگئی کہ اگر راوی بدعت کا داعی ہو تو اس کی روایت مقبول نہیں ہوگی اور اگرروایت میں بدعت کی حمایت ہوتوبھی روایت مقبول نہیں ہوگی البتہ نفس مسلک اور عقیدہ کوروایت کےقبول اوررد میں آئمہ حدیث کے نزدیک کوئی دخل نہیں اسی لیےوہ شرط مذکورکے ساتھ شیعہ اورخوارج کی روایت کواختلاف کے باوجود قبول فرماتے ہیں۔
غرض یہ کہ اصول حدیث میں جُمود نہیں بلکہ اس میں ارتقاء کے لیے پُوری پُوری استعداد موجود ہے لیکن جب بحث، نظر ایک خاص نکتہ پر پہنچ جائے توگفتگو کی گنجائش خود ہی ختم ہوجاتی ہے۔ بحث ونظر کے بعد اہل فن ایک مقام پر پہنچ جانے کے بعد بحث کی گنجائش یا ضرورت نہیں سمجھتے یہ فن میں جُمود نہیں بلکہ تکمیل ہے لیکن ہر فن کی تکمیل کے مراحل کا صحیح فیصلہ ماہرین فن ہی کرسکتے ہیں۔ ہائی کورٹ کےجج قانون کا فیصلہ توکرسکتےہیں لیکن طب اور انجینئرنگ میں ان کے فیصلہ کو کوئی اہمیّت نہیں دی جائے گی۔
آئمہ حدیث کی رجال پر نظر :۔
۱)ھیثم بن بشرواسطی زہری کے شاگرد ہیں اوراُستاد شاگرد دونوں ثقہ ہیں اور دونوں بخاری کے رجال میں سے ہیں لیکن ہیثم کی روایت زہری سے صحیح نہیں۔ اس لیے صحیح بخاری میں ھیثم عن الزھری کی کوئی روایت نہیں۔ محدثین کی دقت نظر کا یہ حال ہے کہ وہ ہر ہر شاگرد کی مرویات پر ہرا ستاد کےلحاظ سے گہری نظر رکھتےہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ضبط میں کہاں خلل واقع ہوا اور فلاں شاگرد نے استاد سے اخذ کرنے میں کہاں کوتاہی کی۔
۲)ورقاء بن عمر یشکری ثقہ ہیں لیکن منصور بن المعتر کی روایات میں وہ پُورے ضابط نہیں ہیں۔ یہ دونوں رجال بھی بخاری کے ہیں لیکن ورقاء کی روایت منصُور سے آپ کو صحیح بخاری میں نہیں ملے گی کیونکہ ورقاء منصور کی روایت میں ثقہ نہیں۔ آپ کو نئے
|