Maktaba Wahhabi

160 - 191
پہلے انبیاء کےمتعلق ممکن ہے کہ ان تینوں طریقوں کےمجموعہ سے انہیں مخاطب نہ فرمایاگیا ہوبلکہ کسی طریق سے ان پروحی نازل ہوئی ہو لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےمتعلق فرمایا: وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا(۵۲:۴۲) ہم نے تم پر اپنا امراسی طرح وحی کیا۔ یہ حدیث شریف کی وحی کے طریقے ہیں۔ قرآن عزیز کے طریق نزول کی وضاحت یوں بیان فرمائی۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ (۲۶:۱۹۳) قرآن پاک بواسطہ روح الامین تمہارے دل تک پہنچایاگیاتاکہ تم ڈراؤ۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ خود قرآن عزیز سےمعلوم کیاجائے کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اہمیّت قرآن کی نظرمیں کیاہے ؟ مُستقبل کی مشکلات سے رواۃ کےحفظ ِ عدالت شذوذاورعلل کےنقائص مُنزّل قرآن کی نظر سے پوشیدہ نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم تھا کہ سلسلہ روایت سےشکوک وشبہات اور ظنون کا پیداہوناضروری ہے۔ اس کےباوجود اگرقرآن عزیز، احادیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی اہمیت کوقبول فرمائے توہمیں اعتراض کا حق نہیں ہوناچاہیے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن علم کےاس شعبہ کو علی ٰ علّاتہٖ قبول فرماتاہے۔ ظنون اور شبہات کےباوجود اس کی ضرورت کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔ یہ تعلیم قرآن کا ایک جزو ہے اور وہ نقائص جن سے ہمارے شبہات میں اضافہ ہورہاہے اور جسے ہم شکؔ۔ ظنؔ یاوہم سےتعبیر کرتےہیں۔ قرآن کی نظرمیں یہ کوئی عیب نہیں ہے لہٰذا اس کی بناء پر احادیث کورد نہیں کیاجاسکتا۔ اگرحدیث کی حیثیت عام تاریخ یا حوادث روزگار کی ہوتی او راُسے کوئی غیرمعمولی اہمیّت حاصل نہ ہوتی توقرآن مجید اسے اتنی اہمیّت نہ دیتا اور اس کے متعلق اتنے گہرے اورمضبوط ارشادات نہ فرماتا اور نہ ہی اسے بار بار دہراتا۔ قرآن مجیدمیں احادیث کاتذکرہ:۔ قرآن عزیزمیں احادیث کا تذکرہ دو طرح پر ملتا ہے۔ ۱)رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے الگ باستقلال ذکر فرمانا( ۲) آیات میں ایسے مقاصد کا ذکر جن کی تکمیل
Flag Counter