Maktaba Wahhabi

68 - 191
ا ور رشوت لیتے رہیں گے۔ مختصر یہ کہ محض ایک مفروضہ کی حیثیت سے تو مرکز ملت کا ذکر سامعہ نوازہوسکتا ہے ورد وظیفہ کی طرح تبرکاً اس کا تذکرہ ہوسکتا ہے لیکن عملی اور افادی لحاظ سے تو یہ بالکل بے کار چیز ہے، باعمل ذہن اس کا ذکر بھی پسند نہیں کرے گا۔ سُنت جیسے مفید اور مقدس علم سے انکار کے بعد مرکز ملت کا تصور ذہن کی ایک لغزش ہے اور ایک فکری نامرادی، سنت کوظنی کہنے والے کن اوہام اور مزخرفات میں گرفتار ہوئے۔ یہ حضرات اتنانہیں سوچ پائے کہ آخر اس مرکز کےفیصلوں کی حیثیت قرآن کی ہے یا متواتر احادیث کی یا پھر آحاد کی۔ ہمیں تواوہام اور مزخرفات سے بھی اسکا مقام پست معلوم ہوتاہے۔ عملاً اس کا اثر محض جدلیات ہوں گے جن پرکوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوگا۔ ایک فاضل جج کی غلط فہمیوں پر مبنی تنقیحات اور اُن پر ایک نظر حدیث کی تحقیق موجُودہ دور میں :۔ مغربی پاکستان ہائی کورٹ کےجج میاں محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں :۔ ”میں اس بات کےحق میں نہیں ہوں کہ محدثین کی جمع کردہ احادیث کو اسلامی قانون کے سرچشموں میں سے ایک سرچشمہ تسلیم کرلیاجائے۔ جب تک اس کی دوبارہ جانچ پڑتال نہ کرلی جائے اور یہ پڑتال بھی کسی تنگ نظری یا تعصب پر مبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اُن تما م قواعد وشرائط کو بھی از سر نو استعمال کیاجاناچاہیے جنہیں امام بُخاری وغیرہ نے بے شمار جھوٹی، موضوع اورجعلی حدیثومیں سے صحیح احادیث کوالگ کرنےکےلیے مقررکیاتھا۔ نیز ان معیارات کو بھی کام میں لانا چاہیے جونئے حقائق وتجربات نے ہمارے لیے فراہم کیے۔‘‘ ( بحوالہ منصب رسالت نمبر ؃ ۲۷۶ رسالہ ترجمان القرآن لاہور) احادیث کو نئے اندازپررکھاجائے۔ یہ آواز مدت سے زبان و قلم کی نوازش کے بعد سامعہ نوازہورہی ہے۔ قریب قریب پچا س سال کا عرصہ ان گرجتے بادلوں پر گزرا ہے۔
Flag Counter