Maktaba Wahhabi

147 - 191
کی اس احتیاط کے باوجود ائمہ حدیث نہ متقدمین کی روش پرمطمئن تھے نہ متاخرین کے طریق پر، یہ حضرات دونوں جگہ حدیث اور سنت کے صافی چشموں کومکدر پاتےتھے شعبی فرماتے ہیں۔ "لَقَدْ بَغَّضَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ إِلَيَّ الْمَسْجِدَ حَتَّى لَهُوَ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ كُنَاسَةِ دَارِي» قُلْتُ: مَنْ هُمْ يَا أَبَا عَمْرٍو؟ " قَالَ: الْآرَائِيُّونَ، قَالَ: وَمِنْهُمُ الْحَكَمُ وَحَمَّادٌ وَأَصْحَابُهُمْ " (مختصر بیان العلم ابن عبدالبر ۱۴۶؃ ج۲۔ القول المفیدللشوکانی ) جولوگ اس وقت اس محتاط روش پر مطمئن نہیں وہ آج کل نیچر پرستی پر کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں۔ آج کے اہل حدیث حضرات سب کچھ دیکھتے ہیں اور ان کی سلفیت پر کوئی آنچ نہیں آتی ؎ اکل امرء تحسبيني و مراء ونارتوقدباللیل ناراً ہمیں یقیناً معلوم ہے کہ آئمہ اربعہ حدیث کو حجت مانتے ہیں، اسے دین کا ماخذ سمجھتے ہیں اور اسی تعریف سے حجت سمجھتے ہیں جو آئمہ سنت اور عامۃ المسلمین میں مسلّم ہے اور ایک دوسرے کومسلمان سمجھنے کے باوجود اہل ِ حدیث کواحناف، شوافع، موالک او ر نابلہ کی فقہیات سےاختلاف ہے، و ہ ان سکول ہائےفکرمیں حدیث اور سنت کی تقدیس کواس قدر محترم اور محفوظ نہیں سمجھتے جس قدر اہل ِ حدیث اور سلفی سکولِ فکر میں اسے محترم اور محفوظ پاتےہیں۔ چوتھادَور:۔ انگریز کی آمدکے بعد جب ملک میں تعلیمی نظام تقسیم ہوا، دینی تعلیم عصری تعلیم سے الگ ہوگئی، سکولوں اور کالجوں کا طریقِ فکر مذہبی مدارس سے مختلف ہوگیا۔ عیسائی مبلغ اپنی حکومت کی سرپرستی میں ہندوستان میں چھاگئے علماء اور مذہبی مدارس توان سے کیامتاثر ہوتے، انگریزی تعلیم اور ا س کی حمایت کرنےو الے ان سے بہت حدتک متاثر ہوئے۔ سید احمد خاں مرحوم سے لےکر سکولوں کے طلبہ اور اساتذہ تک اس کے اثر سے نہ بچ سکے، ان میں سے بعض حضرات کی اسلام سے وابستگی واقعی خلوص پر مبنی تھی اور ان لوگوں نے عیسائی شبہات کےجواب میں پورے زور سے قلم اٹھایا
Flag Counter