من حیث الکل قبول کرلینا جس درجہ کی غلطی ہےا سی درجہ کی غلطی من حیث الکل رد کردینا بھی ہے۔ “(تفہیمات ۳۱۴)مولانا کا مشورہ یہ ہے کہ منکرین حدیث کوپُورے ذخیرہ کا انکارنہیں کرنا چاہیے۔ (میرا خیال ہے کہ منکرینِ حدیث سے پرویز پارٹی شاید مولانا کی تجویز سے اتفاق کر لے ) اس کے بعد مولانا فرماتے ہیں کہ ”آحاد کوردکرنے سے دین میں جامعیت نہیں رہے گی۔ قرآن سے اورمتواتر احادیث سے اسلام کا مکمل نظام حیات نہیں مل سکتا، صرف اخبار آحاد ہی ہیں جو ہم تک ہدایات کا عظیم الشان ذخیرہ بہم پہنچاتی ہیں۔ “ ( تفہیمات ۳۱۶)
یہ انداز بیان کتنا ہی معذرت خواہانہ کیوں نہ ہو مگردُرست ہے۔ طریق ادامیں کتنی مسکنت اورکمزوری ہومگر مجارات مع الخصم کے طریق پر مولانا نےجوفرمایا مناسب ہے۔ طریق ادا سے اختلاف کیاجاسکتا ہے مگر جو فرمایا کافی حد تک صحیح ہے۔
دُوسراحصہ:۔
دوسرے حصہ میں مولاناآئمہ حدیث اور ان کی خدمات کی تعریف فرماتے ہیں۔ حدیث کی حفاظت کےذرائع کوبھی قرآن کی غیر معمولی حفاظت کےذرائع کی طرح بےنظیر کہتےہیں۔ اصُول محدثین کی تعریف فرماتےہیں لیکن اس پر بے اطمینانی کا اظہار فرماتےہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔
”وہ بہرحال تھے تو انسان ہی، انسانی علم کے لیے جو حدیں فطرۃً اللہ نے مقرر کر رکھی ہیں ان کے آگے تو وہ نہیں جاسکتے تھے۔ انسانی کاموں میں جو نقص
|