مگرذہن چونکہ متاثر تھاقلم لڑکھڑاگیا۔ ’’امہات المومنین“، ”خطبات احمدیہ“ ’’تفسیر احمدی“ (مصنفہ سیّداحمدخاں) میں یہ چیزنمایاں ہے۔ جوحدیث مقاصد کےخلاف آئی اڑادی گئی، جہاں کسی آیت کا مفہوم یا کوئی معجزہ نیچر سے منحرف ہوا اس کا حلیہ اس طرح بگاڑا اور تاویل و تحریف میں ایساترادُف پید اکیا جس پر ملائکہ بھی حیران ہوگئے، حکومت کوبھی ا س سے فائدہ ہوا، ۱۸۵۷ء کےمظالم سے جن دلوں میں انتقال کی آگ جل رہی تھی انہیں ایک وقتی مشغلہ ہاتھ آگیا۔ اس طریقِ فکر کے اثرات ملک میں مختلف انداز میں ظاہر ہوئے۔ ارباب قادیان پر تاویل کافیضان ہوا۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی کوانکارِ حدیث کاسبق ملا۔ مولانا شبلی رحمہ اللہ اور مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی تفسیرکےجواجزاء عربی میں شائع ہوئے ہیں ان میں حدیث سے بہت کم استفادہ فرمایا گیا ہے مگر تورات اورانجیل کے رائج الوقت نسخوں سے کافی استفادہ کیا گیاہے۔
درایت اور تفقّہ :۔
مولانا شبلی رحمہ اللہ نے سیرۃ النعمان میں محدثین کے طریقِ فکر پر کڑی تنقید فرمائی، فقہائے کوفہ رحمہم اللہ کے طریق فکر کی اس عنوان سے حمایت فرمائی کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو شاید اس جدید اندازکی وکالت کو کبھی پسند نہ فرماتے۔ مولانا نے حدیث کا انکار نہیں فرمایا لیکن عقل کودرایت اور تفقہ کے نام سے اس قدر اہمیّت دی جس سے حدیث اور آئمہ حدیث کے مسلک کوانکار کےقریب قریب نقصان پہنچا، ا ور چند ایک اہل علم کے استثناء کے ساتھ تمام ندوہ کےمتعلقین میں یہ مرض پایاجاتاہے۔ اس حلقے میں یہ غلطی عام ہے کہ آئمہ ¹حدیث فقیہ نہ تھے، تنقید²حدیث کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں ان میں درایت کو نظر انداز کردیاگیاہے، اصول ³درایت کے مُطابق تنقید فقہاء نے فرمائی، اور اب بھی ہر ایک کو حق ہےکہ اس نقطۂ نظر سے حدیث پر تنقید کرے، جسے چاہے رکھ لے اور جسے چاہے ردّی کی ٹوکری میں ڈال دے۔ اناللہ۔ پھر درایت
|