اجْتِنَابَہٗ۔
۹۔ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ۔ (۷۵:۱۶)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی تلاوت میں جلدی نہ کریں متفرقات کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے جب ہم پڑھ چکیں توتم پڑھو پھر اس کے مقاصدکابیان کرنابھی ہمارے ذمہ ہے۔
۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ وحی کےساتھ ہی ضبط کرنے کی کوشش فرماتےہیں تاکہ کوئی لفظ حفظ سے رہ نہ جائے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ آپ اس فکر سے مطمئن رہیں۔ قرآن کا جمع کرنا اور پڑھانا اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔
۲۔ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ۔ بیان کا مطلب یہاں اظہارِ مقاصد کے سوا کچھ نہیں اور یہ جمع اور قرأت سے بالکل مختلف ہے۔ پہلی دونوں چیزوں کا مقصد الفاظِ قرآن کی حفاظت ہے۔ بیان سےمقصد اظہارِ مطلب ہے جووحی کی روح ہے۔ اگر یہ محفوظ نہ ہوتو ا ن الفاظ کی حفاظت چنداں مفید نہ ہوگی وہی بیان ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قول، فعل اور تقریر سے بیان فرمایا۔ اِنَّ حرف تاکید کے ساتھ عَلَیْنَا کومقدم فرماکر بیان کی ذمہ داری بطور حصہ اپنے ذمہ لے لی کہ بیان صرف ہمارے ذمہ ہے اب سوچنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس بیان کو اس تاکید سے اپنے ذمّہ قراردیاہے۔ ( ۱) آیاہوابھی ہے یانہیں ؟(۲) محفوظ بھی رہاہے یانہیں ؟ آیت سےا شارہ معلوم ہوتاہے کہ اس بیان کی حفاظت کا ذمہ بھی لے لیا گیاہے۔
۳۔ اگر رواۃ اور درایت، ا سانید اور رجال کے ظنون وشکوک اسے بیکار کرسکتے تھے انسانی علوم کی پیش بندیاں اسے غیر مستند کرسکتی تھیں توپھر إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُکے مؤکد دعوے سے کیافائدہ ؟
۴۔ اگرا س بیان کا مصداق اصطلاحی احادیث نہیں تو پھر یہ بیان دنیا میں کہاں ہے ؟ بہرحال یہ قرآن عزیز کےلفظی وجود سےتوجُدا ہے۔
۵۔ اگر یہ بیان واقعی محفوظ نہیں رہ سکا اور یہ تاکید دیندار انہ رکھ رکھاؤ سے زیادہ
|