Maktaba Wahhabi

145 - 191
فقیہ کہہ دیں توبڑی عجیب بات ہے۔ حالانکہ وہ خود نہ عرب ہیں نہ علمی خاندان سے تعلق رکھتےہیں۔ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کاتفقہ معلوم ہے، اکابرصحابہ مسائل میں ان کی طرف رُجوع فرماتےتھے۔ گورنر تک کے عہدوں پر فائز رہے۔ خود آئمہ احناف نے ان کی احادیث کو خلاف قیاس قُبول فرمایاکشف الاسرار، کتاب التحقیق وغیرہ مبسوطات میں اس کی تفصیل مل سکتی ہے۔ اس کے باوجود متاخرین احناف میں انکار کےلیے جزوی طور پر یہ چوردروازہ کھولاگیا۔ احاد ترک کرنےکےلیے ایک راہ پیدا ہوئی، لیکن اس میں اس قدر احتیاط رکھی گئی کہ وہی احادیث متروک ہوں گی جن کے راوی فقیہ نہ ہوں گے ( یہاں فقہ سے مراد یہ ہے کہ وہ راوی عربی زبان کواچھی طرح جانتاہوتاکہ روایت بالمعنی ٰ میں غلطی نہ کرے) فقیہ رُواۃ کی روایات رائے کےموافق ہوں یامخالف، قاضی عیسیٰ بن ابان اور ان کے اتباع اسے قبول کرتے ہیں، ا ن کاخیال ہے کہ رائے کا دروازہ بند نہیں ہوناچاہیے، کہیں نہ کہیں اس کے لیے گنجائش نکلنی چاہیے۔ ا س احتیاط کےباوجود ان کا یہ مذہب قدماء احناف میں قبولیت حاصل نہ کرسکا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام ابویوسف رحمہ اللہ، امام محمد اور حضرت امام کے مشہور تلامذہ کوقاضی عیسیٰ بن ابان سے ان کی اس احتیاط کےباوجود اختلاف ہے۔ صحیح راہ وہی ہے جسے جمہُور آئمہ سنت نے اختیار فرمایا۔ قاضی عیسیٰ بن ابان کےمسلک میں سے اعتزال کی بُو آتی ہے، اور آئمہ حدیث کا نقطۂ نظر توقدماء اورا کابر احناف سے بھی مختلف ہے۔ تیسرادَور :۔ متاخرین احناف میں قاضی عیسیٰ بن ابان کے مسلک پر عمل ہونے لگا فقہ اور اصولِ فقہ میں اسی کی بنیاد پر فروع اوراصول تخریج کئے گئے۔ بعض جگہ صریح احادیث کی بھی بعید ازکار تاویلات کی گئیں۔ عینی شرح کنز میں نکاحِ حلالہ کے افادہ تحلیل کا ذکر فرماکر حدیث لعنَ اللَّهُ المحلِّلَ والمحلَّلَ لَه کی تاویل اس طرح فرمائی گئی لعله ارادباللعنة الرحمة ( عینی برحاشیہ کنز کشوری) یعنی حدیث میں لعنت سے شاید رحمۃ سے مراد ہو، غرض متاخرین کی تصانیف میں اعتزال کوکافی
Flag Counter