Maktaba Wahhabi

118 - 191
سے یقینی علم حاصل ہوتاہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے پاس کسی آدمی کاذکر ہواجو کہتا تھاکہ خبرِ واحد سے عمل واجب ہوتا ہے لیکن علم حاصل نہیں ہوتا۔ امام نےا سے ناپسند کیااور فرمایا ”میں نہیں جانتا یہ کیابلاہے “( صواعق، ج ۲ص ۳۶۲) اس سے ظاہر ہے ائمہ اربعہ اور قدماء اس مسئلہ میں اہلحدیث کے ساتھ ہیں۔ خبرواحد پر بدگمانی اس وقت پیدا ہوئی جب متکلمین اور فلاسفہ نے اسلامی عقائد پر یورش کی اور متاخرین فقہاء اس سے متاثر ہوگئے۔ وجدان اور شعور:۔ علم اور یقین کا مسئلہ بہت حد تک وجدانی ہے۔ اس معاملہ میں صرف تعدادہی نہیں، رجال کے اوصاف بھی مؤثر ہوتے ہیں، زہد وتقویٰ کی کمی کےباوجود جب ہم بااخلاق اور متدین آدمی سے کوئی خبر سن لیں تو ہم اپنے دل میں بہت زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں، عامی یا غیر متدین متعدد بھی ہوں تودل میں وہ یقین پیدا نہیں ہوتا مگر رواۃ کے اوصاف اور دوسرے قرائن سےعلم ویقین میں اضافہ ہوتاہے۔ تعجب ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے عام فرقوں کی طرح خبرواحد کی ظنیت کاوظیفہ شروع فرمادیا۔ حالانکہ دینی جماعتوں کا طریق فکر، بدعی فرقوں سے مختلف ہوناچاہیے۔ تعجّب ہے جس جماعت کی دعوت اقامتِ دین ہووہ رواۃ ِ حدیث کا عام خبروں کے رواۃ سےموازنہ کرے۔ اعتزال وتجہم کےمغالطہ سے متاثر ہوجائے اور پھر اس کا اظہار ایسے وقت میں کرے جب ملک میں اہل بدعت احادیث اور سنن کےخلاف ایک شور برپاکررہے ہوں۔ حالانکہ اہل دیانت کی وجدانی کیفیت کواہل دیانت ہی سمجھتے ہیں، اہل بدعت کےلیے اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ آئمہ حدیث اس وجدان اور شعور کواچھی طرح جانتے تھے، اُنہوں نے اوصاف رواۃ اور موافق قرائن اورمخالف اثرات کوذہن میں رکھ کرفرمایا: والآحاد فی ھذاالباب قد تکون ظنونا بشروطھا فاذا قویت صارت علوما فاذا ضعفت صارت اوھاما و خیالات فاسدۃ ۱ھ ( ابن تیمیہ بحوالہ صواعق ج۲ ص۳۷۴) اخبار حاد کبھی ظنی ہوتی ہیں، کبھی علم ویقین کےمترادف اور کبھی اوہام اورفاسدخیالات۔ تلقی بالقبول: اُمت کےقبول اور عمل سے بھی حدیث یقین کے مقام پر پہنچ جاتی ہے۔ ۱)حدیث:۔ انماالاعمال بالنیات ۲)حدیث ذوق عیلہ ۳)صدقہ فطر
Flag Counter