کوسب کچھ سمجھے، قرآن اور اجتہاد کو نظر اندازکردے۔ “( ترجمان ۱۴۱ )نہ ہم نے کوئی ایساآدمی دیکھاجوتعارض کے وقت یاطریقہ ٔ ثبوت کےلحاظ سےحدیث کوقرآن سےمقدم سمجھے، نہ کوئی ایساآدمی ملا جوہر حدیث کومتواتر سمجھے، ا ہل ظاہر سے ابن حزم کی کتابیں اہلِ علم کی نظر میں ہیں۔ محلّی چھپ چکی، الؔاحکام بازار میں موجود، جمہرۃ الانساب ملتی ہے ہمیں توان دعاوی کی صداقت مشتبہ معلوم ہوتی ہے اور بچارے اہل ظاہر پر یہ کھلی تہمت ہے، مولاناایسے متین آدمی کےقلم سے ایسے الفاظ نہ نکلتےتوبہترہوتا۔ و ہ قیاس کےسوا باقی تمام مآخذ کو مانتے ہیں۔
غایت یہی ہے کہ بعض ناموں سے کسی خاص طریق فکر کے ساتھ تعلق اورا یک مسلک کے ساتھ ربط معلوم ہوتاہے۔ مثلاً ایک شخص جماعت اسلامی میں داخل ہوتاہے تواس کا یہ مطلب ہم سمجھ سکتےہیں کہ یہ شخص مولانا مودودی کی قیادت کوموجود قیادتوں سے بہترسمجھتاہے۔ ان پر اسے زیادہ اعتماد ہے مگر اس کا یہ مطلب تونہیں ہوگاکہ وہ مولانامودودی کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم یا آئمہ پرترجیح دیتاہے اسی طرح ایک اہلحدیث کےمتعلق یہ سمجھ میں آتاہے کہ وہ حنفی یاشافعی طریق فکر کی بجائے آئمہ حدیث کےطریق فکر کوترجیح دیتاہے۔ عملی زندگی میں آئمہ حدیث پر اعتماد کرتا ہے، مگر یہ بدگمانی کیوں کی جائے کہ وہ حدیث ہی کو حجت سمجھتا اور قرآن اور اجتہاد کو نظر انداز کرتاہے۔ ان صفحات میں مولانا کا طریقِ بحث بُہت دلخراش ہے اور ثقاہت سے گراہوا ہمیں متانت اور سنجیدگی سےشکوہ ہے کہ اُس نے مولانا کا ساتھ کیوں چھوڑدیا۔
دُوسری شرط :۔
استفادہ کی دوسری شرط میں مولانا نے فرمایا کہ ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم نہ سمجھے۔ “ ( ترجمان ۱۴۳ )یااللہ ! یہ کس نے کہا؟ کب کہا؟ کیسے کہا؟ واقعہ صرف اس قدر ہے کہ ائمہ حدیث نے تنقید ِ حدیث کےمتعلق صدیوں محنت فرمائی۔ احادیث کی صحت، ضعف، حسن، ارسال، انقطاع، شاذ اورمقبول کےمتعلق کچھ عقلی، کچھ لغوی اور عرفی فیصلے فرمائے، ان فیصلوں کو صدیوں سے اہل ِ علم قبول فرمارہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی بلاوجہ مخالفت نہ کی جائے، اگر اختلاف
|