فن کوکیوں نظر انداز کیاجارہاہے جس نے لاکھوں آدمیوں کی زندگیاں نکھار کررکھ دیں۔ اور فن روایت ودرایت کوچھان پھٹک کر دنیا کوتاریخ کےاصولوں پرتنقید کا راستہ دکھایا اور تاریخ کوقصّہ گوئی کے افسانوی دورسے نکال کر ایک منقح اور مستند فن کی حیثیت دے دی۔ اب دوہی راہیں ہوسکتی ہیں یاتواسے کسی خاندان یابستی کا رواجی قانون قرار دےلیاجائے اور اس کی غیرمحدود وسعتوں سےآنکھیں بند کرلی جائیں یا سنت کو حجّت تسلیم کرلیاجائے۔
اسلام کی وسعتیں
اگراسلام پوری دنیاکےلیے ہے اور اس کی وسعتیں پوری کائنات پرمحیط ہیں۔ وہ حقیقت ہے افسانہ نہیں اور اس کا انحصار یقینیات یامظنونات علمیہ مستندہ پر ہے تو پھرتکمیل دین کےلیے سنت اور فن حدیث کی خدمات سےگریز ناممکن ہے۔ اس سے عبادات، معاملات، معاشیات، سیاسیات، حروب اوربین الاقوامی مسائل تک راہنمائی ملتی ہے اور وہ بھی وحی اور نبوت کی زبان سے جس کے سامنے ہزار مرکزمِلؔت گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور آئندہ بھی سرنگوں رہیں گے۔ عقل وشعور کی دُنیا میں ان مراکز ملّت کو استشہاد اور یقین کا وہ مقام کبھی حاصل نہیں ہوگا جودفاتر ِ سنت اور دوادین ِ حدیث کو حاصل ہوا ہے۔ فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ
منکرین سُنّت کا عجز
دین کی وسعت میں انکار ِحدیث سے جوخلا پیدا ہوا تھا اسے پاٹنے کی پون صدی کی کوششیں توہمارے سامنےہیں۔ اس عرصہ میں بچاری نمازہی ان علماء کا تختۂ مشق رہی آج تک یہ ارباب تحقیقی نمازکے وقت اور ہئیت اذکار، نوافل وفرائض واجبات رکعات اور ارکان تک کا فیصلہ نہیں کرسکے جولوگ اتحاد کا نعرہ لگاکر اختلافات
|