توآپ محسوس فرمائیں گے کہ ان دونوں مقامات میں نہ ربط ہے نہ جوڑ۔ کجاوہ رفعت کہ ذات حق نے انہیں اپنےمخصوص خطاب سے سرفرازی بخشی اور کجا یہ انحطاط اور پستی کہ اس پاک باز اور مقدس شخصیت کےارشادات کوشرعاً کوئی اہمیت ہی حاصل نہیں۔ این الثریا من الثریٰ و این الخصیض الدانی من السموت العلیٰ۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (۵:۳)
میں نے آج تمہارے لیے دین کوکامل کردیا اور اپنے انعامات کی بارش برسادی اور اسلام ہی تمہارے لیے پسندیدہ دین قرار پایا۔
اس آیت کا بظاہر حدیث کی حجیت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس میں صرف دین کی تکمیل کا تذکرہ ہے لیکن جب ہم کامل دین کے مختلف شعبوں کو دیکھتےہیں۔ عبادات، مُعاملات، مغازی، سیر، معاشی اور بین الاقوامی مسائل پرغور کرتےہیں توقرآن عزیز کوایک اصولی کتاب اور آئینی صحیفہ تصور کرنےکےبعد تفصیلات کےلیے ذہن میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ اب اس تفصیل کےلیے اگرعلماء کابورڈ مقررکیاجائے یا کسی ذہین آدمی کومرکزِ ملّت بناکر اس کی طرف رجوع کیاجائے تویہ پور اغیر معصوم ماحول ظنون واوہام اور شکوک و مزخرفات کی ایک گٹھڑی ہوگی جسے ایک پاگل کے سر پررکھ کر اسے اندھے اونٹ پرسوار کرکے مہار اس کےہاتھ میں دے دی جائے تاکہ وہ اس موہوم امانت کواپنی مرضی سے بانٹتاپھرے ؎
کبھیمة عمیاء قادزمامھا
اعمی علی عوج الطریق! الحائر
اگریہ ظنون واوہام دین قرا رپاسکتےہیں توپھر خبر واحد نے کیاجرم کیاہے کہ اسے ساقط الاعتبار قرار دیاجائے اور علم الاسناد نے کون ساگناہ کیاہے کہ اس پرتابڑ توڑ حملے کئےجارہے ہیں۔ رجال اور اصول ِ حدیث ایسے معقول اور متعارف
|