Maktaba Wahhabi

79 - 191
اس میں کچھ عُریانی محسوس ہوتی ہے۔ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ (۳۷/۷۵) وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ مِن نُّطْفَةٍ إِذَا تُمْنَىٰ (۵۳/۴۶) أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ (۵۶/۵۷) یمنیٰ۔ تمنیٰ اور ماتمنون میں جس حقیقت کا اظہار فرمایا گیا ہے اس میں بڑی عُریانی ہے لیکن نعمت تخلیق کے اظہار کےلیے یہ عریانی موزوں ترین راہ ہے۔ اس لیے شرم و حیا کےکتنے ہی عاشق کیوں نہ ہوں ایسے مواقع پر یہ عریاں انداز باور کرناہی پڑے گا۔ اس قسم کی عریانی قرآن عزیز نے کئی جگہ اختیار فرمائی۔ زندگی کے مختلف مراحل میں ہر آدمی کوعُریانی سے کم و بیش سابقہ ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ آپ حضرات کی نزاکت گفتگو میں اس انشراح کوپسند نہیں کرتی حالانکہ عملاً ننگا ہونا شرعاً، اخلاقاً عرفاً جُرم ہے لیکن بعض مواقع پر عملی عریانی کی کھلی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ یہ ضرورت کاتقاضا ہے :۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (۷۰/۳۰) اہل ایمان اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر بیویوں اور لونڈیوں کے ساتھ عریانی کی اجازت فرمائی ہے اور اس عریانی کوانسان فطرتاً پسند کرتاہے اور ضرورتاً بھی۔ اصل مُصیبت:۔ اصل مُصیبت یہ ہے کہ آپ مذہب کوزندگی اور اس کے تمام گوشوں پر محیط نہیں سمجھتے۔ آپ اسے ہر انسان کا پرائیوٹ معاملہ سمجھتے ہیں اور اس کے عمومی مصالح کوخصوصی اور شخصی اختلاف کےپیمانوں سے ناپتے ہیں۔ معلوم ہے کہ پُوری انسانیت کےپیمانے، شخصی اور افراد کے پیمانوں سے مختلف ہیں۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوں کو آپ زیادہ سے زیادہ چیف جسٹس کی ذمہ داریوں کے برابر تصور کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کےلیے
Flag Counter