یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ یا امام احمد رحمہ اللہ کی حیثیت کے آدمی از اوّل تاآخر اسے روایت کریں سنگین شروط کا نتیجہ معنی انکار ہی ہوگا۔
۱۲)اس تعریف کےمُطابق صوم عاشوراء جوغالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی دفعہ رکھا۔ نمازتراویح جسے حضرت نے رمضان میں صرف تین دن باجماعت ادا فرمایا۔ دُعا ء استفتاح کےمختلف صیغے جن پر مختلف اوقات میں عمل فرمایاایسے ہی دوسری عملی سنتیں جن پر استمرارثابت نہیں یا وہ زیربحث ہے، اس تعریف میں کیسے شامل ہوں گی۔ ان کی سُنیت سے انکار اس تعریف کے مُطابق دشوار نہیں ہوگا۔
۱۳)سنت کی تعریف میں بعض اہل علم کچھ قیود کے ساتھ عادات اور عبادات دونوں کوشامل سمجھتے ہیں، بعض تعبّدی امور ہی کو سُنّت میں داخل جانتے ہیں۔ یہ بحث اپنی جگہ محل نظر وغور ہے۔ لیکن مولانا کی تعریف اس باب میں بھی خاموش ہے۔ عادات مستمرہ کوخارج کرنےکےلیے تعریف میں کوئی فصل نہیں۔ آپ کی اس تعریف کوزیادہ سے ز یادہ اتنی اہمیت دی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی عمل ان شرائط سے ثابت ہوجائے تو وُہ بھی سنت ہوگا۔
۱۴)اصطلاحات کے تعین کا ہر شخص کو حق حاصل ہے لیکن ان کو آئمہ کی متعینہ اصطلاحات کی جگہ نہیں دی جاسکتی۔ مثلا اگر کوئی یہ کہے کہ میرے نزدیک صلوٰۃ کا مفہُوم ربوبیت کبریٰ ہے اور آخرت سے مراد یوم الحساب نہیں بلکہ اسی دنیا میں کل کی فکر اور زندگی میں مستقبل کی فکر ہے اور ملائکہ سےمراد قدرت کے وہ کرشمے ہیں جو اسی دنیا میں انسان کےلیے مسخر فرمائے گئے ہیں، صوم سےمراد جذبات پر صرف انضباط اور کنٹرول ہے، و غیرہ وغیرہ، اپنی اپنی جگہ یہ چیزیں کتنی ہی مفید کیوں نہ ہوں مگر اس سے صوم وصلوٰۃ ایمان بالآخرۃ اور ایمان بالملائکہ کےمتعلق متعارف اور مصطلح مفہوم ثابت نہیں ہوگا۔ اسی طرح سُنت کےمتعلق ایک جدید اصلاح کی حدتک تواس پرغور ہوسکتاہے لیکن وُہ مابہ النزاع مسئلہ جس پر گفتگو چل رہی ہے اس سے حل نہیں ہوگا۔ جہاں تک میرا خیال ہے مولوی احمددین امرتسری قریباً اسی نقطۂ نگاہ سے اعمالِ متعارفہ اور معمُول بہاسنن
|