اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں احادیث کا مجمُوعہ لکھوادیتے اور وُہ مجموعہ آج قرآن کی طرح ہمارے ہاتھوں میں ہوتا پھر جب تک وہ قرآن کےموافق نہ ہوتا ہم اسے قطعاً شرعی حجت نہ سمجھتےبلکہ اگر ہماری سمجھ اور ہمارے علم کی روسے قرآن کے موافق اس کا مفہوم نہ ہوتا توبھی ہم قرآن کو ترجیح دیتے اور وہ مفہوم جسے ہماری عقل قرآن تصور کرتی ہے اُس کو حدیث کے اس مسلّم الثبوت مجموعہ پرترجیح ہوتی۔ اس عقیدہ کےبعد سند یا تدوین حدیث کے اوقات یا حفظ حدیث کے ظرف کی بحث کی جاسکتی ہے لیکن انکارِ حدیث کے لیے اسے مستقل دلیل کا مرتبہ نہیں دیا جاسکتا۔
خلط مبحث :۔
ان گزارشات سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ خلطِ مبحث کی یہ روشنی ختم ہوجائے اسی لیے الاعتصام میں چند اقساط ظنِ حدیث کی مختلف حیثیتوں کےمتعلق سپردقلم کی گئیں جن میں مَیں نے کوشش کی ہےکہ خلط مبحث سے بچوں اور اپنے دوستوں کوبھی بچاؤں تاکہ افہام وتفہیم میں کم سے کم وقت صرف ہو اور ہم ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ سمجھ سکیں۔ میں نے ان قریبی اقساط میں حدیث پر بلحاظ ِ علم روایت، بلحاظ اوقات تدوین، بلحاظ اصولِ روایت، بلحاظ درایت، بلحاظ رجال بالکل بحث نہیں کی کیونکہ ان حیثیات کا مقام ثانوی ہے۔ ان حیثیات پر بحث آئندہ صحبتوں میں ہوگی اور ان شاء اللہ مفصّل ہوگی واللّٰہ ولی التوفیق۔
زیرِ قلم گزارش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل سیرت کے نقطہ ٔ نظر سے ہے۔ جس شخص کی سیرت اتنی مکمل ہو جیسے کہ قرآن ذکر فرماتاہے۔ آیا اُس شخص کےا قوال حجت ہوں گےیانہیں ؟ دوسری طرف ایک اہل ِ قرآن انکارِ حدیث کےلیے دنیا کوقائل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ حالانکہ وُہ زبان نہیں جانتا۔ علوم اسلامیہ سے نابلد ہے لیکن پیغمبر کوجس کی سیرت یہ ہے یہ حق نہیں کہ وہ اپنا فہم لوگوں کے سامنے پیش کرسکے۔ ا ور نہ ہی لوگ اس کےپابندہیں کہ وہ اس کےکامل اسوہ کا اتباع کریں۔ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰ
|