معیارنہیں۔ “
۵)اصل مستندچیز سنت ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم جہاں گئے ان کے پاس علم تھا اور اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ عسلم کےقول و فعل کی تلقین فرمائی، عجیب بات ہے کہ جب یہ حضرات مدینہ میں ہوں تو یہ علم مالک رحمہ اللہ کے نزدیک حجت ہو لیکن جب یہ علم کوفہ یاشام میں چلاجائے تواس کی حجّیت محلِ نظر ہوجائے وَالْجُدْرَانُ وَالْمَسَاكِنُ وَالْبِقَاعُ لَا تَأْثِيرَ لَهَا فِي تَرْجِيحِ الْأَقْوَالِ، وَإِنَّمَا التَّأْثِيرُ لِأَهْلِهَا وَسُكَّانِهَا.(اعلام ج۲ص۲۹۵)
’’اینٹوں اورمکانات کوکسی بات کی ترجیح میں کیادخل ہوسکتاہے، اس کا تعلق تووہاں کے رہنے والوں سے ہی ہونا چاہیے۔ “ علوم صحابہ رضی اللہ عنہم اور سنن نبویہ جہاں ہوں حجت ہوں گی۔
۶)مدینہ میں بھی اہل علم باہم اختلاف فرماتےتھے، مؤطا میں مالک رحمہ اللہ نےخُود ان اختلافات کا ذکرفرمایا، ا س صورت میں بعض اہل مدینہ کے ارشادات دوسروں پرکیونکر حجت ہوں گے اور مولانا سنت ثابت کرنےکےلیے کن اقوال کو معیار قرار دیں گے، موالک کے اس اصول کالحاظ کیسے کیاجائے گا جب دونوں طرف اہل مدینہ موجود ہوں۔
اہل مدینہ اور ترکِ سُنّت :۔
۷)اہل مدینہ بعض اہم سنتوں کو ترک کرچکے تھے مثلاً :
۱)ہاتھ باندھنا موالک میں رائج نہیں وہ کھلے ہاتھوں نماز ادا کرتےہیں۔
۲) موالک سلام صرف ایک طرف پھیرتے ہیں، جمہُور آئمہ کا مذہب ہے سلام دونوںطرف ہوناچاہیے۔ ۳) مالکی نمازمیں بسم اللہ پڑھنا ہی پسندنہیں کرتے۔ ۴) رفع الیدین ایسی معروف سنت موالک میں معمول بہانہیں۔ ۵)تکبیرات میں جہر کارواج مدینہ میں نہیں رہاتھا۔ ۶)دعا استفتاح بالکل ترک کی جارہی تھی۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نےتعلیم کےلیے عرصہ تک اسے جہر فرمایا(مسلم )
۷) موالک میں رواج ہے کہ وہ صبح کی اذان وقت سے پہلے کہنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ سنتِ صحیحہ اس کے خلاف ہے، ا ذان وقت ہی کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ ۸)مسجدمیں جنازہ دُرست ہے لیکن موالک اسے جائزنہیں سمجھتے، ابن حزم نے احکام ج۲میں اس قسم کےبیسیوں
|