کوسنت کہنے کی جرأت نہیں کرتے، و ہ جانتے ہیں کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات کےلیےصحیح راہ سند ہے، شہریت کواس میں کوئی دخل نہیں۔ آجکل سندکےمتعلق جن خطرات کا اظہار کیاجاتاہے اس وقت یہ خطرات موجود نہ تھے۔
۲)امام مالک ۹۳ھ کےلگ بھگ پیدا ہوئے اور ۱۷۸ھ کےقریب آپ نے انتقال فرمایااور عام طور پر کبارصحابہ رضی اللہ عنہم ۳۰ھ سےپہلے ہی دینی خدمات کے سلسلہ میں عراق، شام، فارس وغیرہ مفتوحہ ممالک کی طرف تشریف لے جاچکےتھے۔ دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے مدینہ میں علوج کی کثرت ہوگئی تھی جودنیوی مقاصدکےلیے مدینہ کوقریباً اپنامسکن بناچکےتھے۔ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ اور بعد کے واقعات اور حوادث کاایک سبب اہل الرائے اور کبارصحابہ رضی اللہ عنہم کی عدم موجودگی بھی تھی۔ ان حالات میں اہل مدینہ کےعمل کوکوئی اہمیت نہیں دی جاسکتی بلکہ قرین قیاس تو یہ ہے کہ اس وقت کےعمل کو کوئی اہمیت نہ دی جائے۔
۳) تمام دنیاکےلیے مدینہ ہو یاکوفہ، سنت ہی صحت ِ عمل کی کسوٹی ہے۔ اب سنت کےلیے کسی شہر کو معیار قراردینامعقول بات معلوم نہیں ہوتی۔ سنت اگردیانتاً حجت ہے تو کسی شہر یا کسی فرد کا عمل اس کےلیے بُنیاد نہیں ہوسکتا۔ گھوڑا تانگے کے پیچھے نہیں جوتا جاسکتا۔
۴) کبارصحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی طریقہ تھا کہ سنت ِ صحیحہ مل جانے کےبعد اپنے عمل کو بدل دیتے اور اپنی روش پر اصرار نہیں فرماتے تھے اس لیے اگر بالفرض صحابہ اس وقت مدینہ میں موجود بھی ہوتےتو بھی سنت ان پرحجت ہوتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتےتھے ”کیف اترک الخبر لاقوال اقوام لوعامرتھم لحا ججتھم بالحدیث (احکام للآمدی ج۲ص۱۶۵) ”میں ان لوگوں کی اطاعت کیونکر کرسکتا ہوں اگرمیں اس وقت موجود ہوتا تو سنت کے اعتماد پر اُن سے بحث کرتا۔ “
حافظ ابن قیم فرماتےہیں : والسنة ھی للعیار علی العمل ولیس العمل معیار اعلی السنة۔ (اعلام الموقعین، ج۲ص۲۹۵) سنت معیار ہے کسی کاعمل
|