سمجھنا بھی غلط ہے البتہ یہ کہاجاسکتاہے کہ ظنیات کا مقام تواتر کے بعد ہے یاظنون مصطلحہ تواتر سےمتعارض نہیں ہوسکتے۔
فنِ حدیث اور عقل :۔
یہ بھی صحیح نہیں کہ احادیث کی تنقید میں درایت کو اہمیت نہیں دی گئی، یامحدثین کا نقطۂ نظر اخباری تھا فقہی نہ تھا بلکہ جہاں تک عقل اور درایت کا مقام ہے اس کا پورا پورا احترام فرمایاگیاہے۔ اہل حدیث اور فقہاء کے طریق فکر میں اختلاف کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ آئمہ حدیث تفقہ سے بے خبر تھے۔ اختلاف توخود فقہائے عراق میں بھی موجود ہے۔ علامہ دبوسی کی تاسیس النظر سے ظاہر ہے کہ فقہاء رحمہم اللہ میں اصولی اختلافات موجود ہیں۔ یہ سب طریق فکر کا نتیجہ ہے، نہ فقہاء حدیث سے بے بہرہ ہیں نہ آئمہ حدیث فقہ سے بے خبر۔ ا ختلاف کی وجہ صرف طریقِ فکر میں اختلاف ہے، اور نہ درایت اور ہیرے کی جوت سے یہ جوہری کوئی بھی بے خبر نہ تھا۔ رحمہم اللہ واسعۃ ً۔ ابن قیم رحمہ اللہ اپنے شیخ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سےنقل فرماتےہیں :
قَالَ: وَقَدْ تَدَبَّرْتُ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ أَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَمَا رَأَيْتُ قِيَاسًا صَحِيحًا يُخَالِفُ حَدِيثًا صَحِيحًا، كَمَا أَنَّ الْمَعْقُولَ الصَّحِيحَ لَا يُخَالِفُ الْمَنْقُولَ الصَّحِيحَ، بَلْ مَتَى رَأَيْتُ قِيَاسًا يُخَالِفُ أَثَرًا فَلَا بُدَّ مِنْ ضَعْفِ أَحَدِهِمَا(اعلام الموقعین ۴ج۲)
”حسب امکان میں نے شرعی دلائل پر غور کیا ہے، میں نے صحیح قیاس کوصحیح حدیث کےخلاف نہیں پایا، جس طرح عقل صحیح نقلِ صحیح کےکبھی خلاف نہیں ہوتی۔ جب قیاس کسی اثرکےخلاف ہوتاہے توان میں سے ایک ضرور ضعیف ہوتاہے لیکن قیاس کسی اثر کےخلاف ہوتاہے تواان میں سے ایک ضرور ضعیف ہوتاہے لیکن قیاس صحیح اور فاسد میں تمیز کرنا آسان نہیں۔ “
اسی قسم کی صراحت امام شافعی رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ سے بھی منقول ہے جسے طوالت کی وجہ سے نظر انداز کیاجارہاہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قیاس اور عقل ایک چیزنہیں ہے، قیاس بھی عقل کےخلاف ہوسکتاہے، اس لیے اصول فقہ کےقواعد کوعقلی اصول سمجھنا قطعاً غلط ہے۔ یہ اصول ایک خاص طریق فکر کی ترجمانی کرتے ہیں جس کی وضاحت شاہ صاحب نے حجۃ اللہ، انصاف اور عقدالجیدوغیرہ میں فرمائی ہے
|