پایاجاتا بلکہ اس کےلیے آحاد ہی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ آحاد سے جو علم حاصل ہوتاہےاسے بعض اہل علم نے ظن سے تعبیر کیاگویا تواتر سے دوسرے مرتبہ پر جو علم حاصل ہوتاہے اسے اصطلاحاً ظن کہاجاتاہے۔ ظن زندگی کے تمام شعبوں میں پایاجاتاہے۔ دینی اعمال کا فائدہ ظنی ہے۔ دنیا کےکاروبار اور ان کے نتائج ظنی ہیں، لغت ظنی ہے، الفاظ کی دلالت ظنی ہے، کعبہ کی سمت کافیصلہ بعض اوقات ظن سے کیاجاتاہے، جس ظن پر پوری زندگی کا انحصار ہے اسے نہ شرع نظر انداز کرسکتی ہے نہ عرف اور رواج۔ قرآن مجید نے اس ظن کو مستند سمجھا اور اس پر احکام مرتب کئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک ظنی اطلاع پر مصر سےہجرت کی، ا یک لڑکی کی اطلاع پر مصر میں اسی جگہ پہنچے جہاں مدت تک قیام فرمایا، واپسی پر طُور کا نظارہ ایک ظن کی بناء پر دیکھا اور نبوت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض امید کی بناء پر فلسطین میں قیام فرمایا اورایسے ہی گمان کے پیش نظر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو مع حضرت ہاجرہ حجازکے ویرانہ میں اقامت کا حکم دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کوخواب کی تعبیر کےصلہ میں جیل سے رہائی ملی اور اس کے ظنی عواقب کے پیش نظر حکومت سے سرفراز ہوئے، کنعان سےحضرت یعقوب علیہ السلام نےخبر واحد کی بناء پر مصر کے سفر کی تیاری فرمائی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تیہہ کی زندگی اس گمان پر اختیار فرمائی کہ بنی اسرائیل کوکسی وقت آرام ملے گا۔ غرض قرآن حکیم نے اخبارآحاد اور ظنی اطلاعات کواس استناد کے ساتھ بیان فرمایا گویااس میں وثوق اور یقین پایاجاتاہے۔ عزبن عبدالسلام نے القواعد الکبریٰ کے شروع میں وضاحت سے لکھاہے کہ دنیا اور آخرت کے مُعاملات کا بہت حد تک ظن پر انحصار ہے، ا س لیے امت نے ظن کی اصطلاح استعمال فرمانے کے باجوود آحاد اور ظنیات کودین میں اسی قدر اہمیت دی ہے جس طرح ایک مستند چیز کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ ظن کے اس اصطلاحی مطلب کوسمجھ لینے کے بعد یہ خیال کرنا کہ شریعت میں ظن کے لیے کوئی گنجائش نہیں، غلط ہے اور محض ایک وہم۔ بلکہ مظنونات کو ”غیر ثابت شدہ “ کہنا یا
|