Maktaba Wahhabi

63 - 191
پیدا نہ کی جاسکی تو زندگی آگے نکل جائے گی۔ اسلام پیچھے رہ جائے گا، اس لیے قرآن کی تشریح وقت کے مُطابق ہونی چاہیے، حدیث کی حیثیت غیر مُستند تاریخ کی ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہوتو کبھی اس طرف بھی ایک نظر ڈال لی جائے، لیکن اس کی تفصیلات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور آپ کی خاموشیاں اگر دین تصوّر ہوں تو اسلام تنگ ہوجائے گا اور مسلمانوں کے لیے ا س دنیا میں رہناناممکن ہوجائے گا۔ انہیں قانون کی اساس نہیں بنانا چاہیے، پیش آمدہ حوادث کے متعلق ہر زمانہ میں اس وقت کے لوگ اپنے حالات کے مُطابق قرآن کی تفسیر کریں گے۔ تفسیرمیں سلف یاخلف یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی پابندی قطعاً نہیں ہوگی بلکہ مجتہد اورمفسر حضرات جمہُور کے انتخاب سے مقرر ہوں گے۔ ملاحظہ ہو”فیصلہ جسٹس محمد شفیع “ جہاں تک قرآن مجید کی تعبیر اور اُس کےکلیات کوجزئیات پر منطبق کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں جو کچھ عوام کے منتخب نمائندے طے کریں گے اسے بھی قانون کا درجہ حاصل ہوگا“۔ (بحوالہ منصب رسالت نمبر ۲۵۶؃) اسی قسم کے منتخب نمائندوں سے ایک مرکز ملت تشکیل پائے گا۔ ہر زمانہ کا مرکزِ ملّت احکامِ اسلامی، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، نکاح، طلاق، بیوع، اجارہ، میراث، اموال اسلامی، ٹیکس وغیرہ کے متعلق آزادانہ فیصلہ کرے گا۔ وُہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کےصحابہ رضوان اللہ اجمعین کے فیصلوں سے آزاد ہوگا۔ کسی دوسرے مرکزِ ملّت کے فیصلے بھی اس کے لیے شرعی یادینی حیثیت نہیں رکھیں گے۔ پہلے اور اب:۔ انکار ِ حدیث کے پہلے دور کی حیثیت پہلے ذکر ہوچکی اب ان پڑھے لکھےبابوصاحبان کے نزدیک اسلام ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس میں ہر چند ہزار آدمی آباد ہیں۔ بس اس اسٹیٹ کے منتخب نمائندوں کو ان چند ہزار آدمیوں کی ضروریات سے تعلق ہے اور بس یا اسلام ایک دفتر ہے جس میں چند بابو صاحبان کام کرتے ہیں، ان کی ذمہ داری صرف اس قدر ہے کہ وہ اس دفتر کے رفقاء کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ اسلام بلحاظ ِ نظام ِ زندگی
Flag Counter