کام ہوتارہا، نماز بنتی رہی، منکرین حدیث کے بڑے بڑے فاضل دن رات کام کرتے رہے۔ پچاس سال تک اکابر امت پر پھبتیاں اڑتی رہیں، پچاس سال کے بعد معلوم ہوا کوئی متفقہ نمازنہیں بن سکی نہ رکعات کا تعین ہوسکا۔ نہ وظائف طے ہوسکے نہ اوقات کا فیصلہ ہوسکا۔ پچاس سال کے بعد کاریگر باہم دگردست وگریباں ہوگئے۔ ہر ایک نے دُوسرے کے کام کو غلط اورناتمام کہا۔
آخرنماز نہ بن سکی، مالک تنگ آگیا، اس نے آرڈر واپس لے لیا اور کارخانہ بند کردیا۔ اور کاریگر ملتان، گوجرانوالہ، ڈیرہ غازی خان منتقل ہوگئے۔
یہاں تک اسلام چند فقہی مسائل کا نام تھا جن میں سے سب سے پہلے نماز ہی ان حضرات کی نگاہ میں آئی جو نہ بن سکی یہ حضرات نہ اسلام کو نظامِ زندگی سمجھتے تھے نہ ہی اُنہوں نے اس کے لیے کوشش کی۔
پچاس سال کے بعد کچھ کلرک ریٹائر ہوئے کچھ یورپ زدہ حضرات احادیث کی تشریحات سے تنگ آئے ہوئے تھے جنہیں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور قربانی وغیرہ مسائل کسی طرح پسند نہ تھے، انہوں نے نظریہ تو مولوی عبداللہ صاحب سے مُستعار لیا لیکن اپنے سابقہ تجربے سے فائدہ اٹھاکر نماز، روزہ، ارکان اسلام کو کچھ غیر ضروری سمجھ کر نظر اندازکردیا اور فرمایا یہ سب وقتی احکام تھے جو اس وقت اُمّت کو دیے گئے تھے۔ اب دُنیا بہت آگے نکل چکی ہے، وقت کے تقاضے بدل چکے ہیں، یہ نماز، وضو، روزے عبادات پرانا فرسودہ فلسفہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں زندگی کی دوڑ میں یورپ سے آگے نکلناہے۔ اس لیے اب عورت کو برقع اتارپھینکنا چاہیے۔ اسے حق ملنا چاہیے کہ وُہ سرِمحفل اپنے حسن کی نمائش کرے، کلب میں دوستوں سے ملے، مرد کو خواہ مخواہ اس پر بدگمان نہیں ہونا چاہیے، ہر ایک کو اپنی خواہشات پورا کرنے کا حق ہے، یہ پابندیاں اور ستر، شرم وحیا یہ حدیثوں نے دین میں شامل کی ہیں۔ اب قرآن کے الفاظ یا ترجمہ کی ضرورت نہیں۔ اب صرف مفہوم اور مقصد سمجھنا چاہیے اور قرآن اور اسلام کونئے تقاضوں اور زندگی کی جدید راہوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اگر یہ کشادگی اسلام میں
|