آئندہ بھی رہےگی “۔ الخ (تفہیمات ۳۲۴)
پھریہ ہیرے کی جوت کیسے ہوئی ؟ یعنی فقہائے اسلام کاطریق فکربھی ذوقی ہے کوئی اُصول نہیں۔
اب کوئی بتائے ان تیرہ صفحات میں مولانانےہمیں کیادیااور کون سی اعتدال کی راہ بتائی ؟ منکرین حدیث دریافت کرتےہیں کہ حضرت نے اس قدر ملامت کے بعد ہمیں کیا عنایت فرمایا؟ آپ اور ہم میں نقطۂ امتیازکیاہے۔
مولانا اصلاحی صاحب
مولانااصلاحی مستنداور پختہ کار عالم ہیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ ایسے صاحب فکر سے انہوں نے استفادہ فرمایاہے۔ آپ نے اپنے ارشادات میں قریباً وہی سب کچھ فرمایا ہے جو مسلک اعتدال میں کہاگیاہے۔ مگرذہن اورخیالات کی پراگندگی کوالفاظ کی سطح پرنمایاں نہیں ہونے دیا۔ لیکن فضاکی گرمی اور اخبارات کی تیز تنقیدات سے ذہن متاثر ہے۔ بعض مقامات پر لہجہ خاصا تند ہوگیا ہے۔ طبعی متانت اور فطری سنجیدگی کے باوجود مولانا بعض ایسی چیزیں فرماگئے کہ اگر نہ فرماتے توبہتر ہوتا، ایک متین آدمی کے لیے اس قدر نیچے آجانا کوئی اچھی مثال نہیں۔
ایک ضُروری وضاحت:۔
زیر قلم گزارشات سے مقصد کچھ ایسے مسلک کی وضاحت ہے اور کچھ ان بزرگوں کےا رشادات اور ان کے مُضر اثرات کی نشاندہی، تاکہ یہ ظاہر ہوسکے کہ حدیث اور سنت کی حمایت میں وُہ راہ صحیح ہے جسے جماعت اسلامی کی قیادت نے اختیار فرمایا، وُہ مسلک دُرست ہے جس کی نشاندہی آئمہ حدیث اور سلف اُمّت نے فرمائی ہے نیزاسلام کی وسعت اور ہمہ گیری ان حضرات کے طریق فکر سےظاہر ہوتی ہے یااہل حدیث کے طریق فکر سے جن مقاصد کی تحصیل اور تکمیل آپ حضرات برسوں سے فرمارہے ہیں اس کی کفالت اہلِ حدیث کا مسلک کرسکتا ہے یا آپ کے یہ محتاط اور
|