Maktaba Wahhabi

184 - 191
لکھی گئی اور انفرادی شبہات کا کافی حد تک ازالہ کردیاگیا مگر ا س دور میں فنِ حدیث کی مجمُوعی حیثیت پر اعتراض کا حوصلہ کسی کونہیں ہوا۔ زمخشری ایسے بالغ بالنظر لغوی اور ادیب نے اعتزال آمیز آزادی کے باجود احادیث کا ذکر کیا اور اکثر معجزات کوتسلیم کیاجن کو خود آئمہ حدیث قبُول کرنے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ آئمہ حدیث کو قاضی بیضاوی اور زمخشری کی احادیث کےلیے تخریج کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ یہ غیر مستند ذخیرہ صحیح احادیث کی اہمیت پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ جہل بالقرآن اور انکارِ حدیث :۔ حدیث کی حجیت کا انکار زمانہ ٔ جہل کی پیداوار ہےانکارِ حدیث کی ابتداء ان لیڈر منش علماء کی طرف سے ہوتی جو انگریزی تعلیم اور انگریز بہادر کی پیداوار ہیں۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی کےعلاوہ یہ تمام حضرات عموماً اسلامی علوم کوانسائیکلوپیڈیا سے حاصل کرنے کے عادی ہیں۔ یہ قرآن کی تاریخ اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی سیرت کومسٹرنکلسن سے سیکھنا انتہائی تحقیقات تصوّر کرتے ہیں ان کی اکثریت ایسی ہے جنہوں نے اسلامی علوم کو اسلامی ماخذ سےحاصل نہیں کیابلکہ اسلامی علوم کویورپین مشتشرقین اور انگریزی زبان کے توسط سے سیکھاہے۔ ترجمہ قرآن ِ عزیز میں جن حضرات کا مدارمسٹرولیم پر ہے اگر وہ حدیث کاانکار کریں توانہیں کون روکے اور کیونکر؟ مدیر طلوع اسلام، علامہ عنایت اللہ مشرقی اورمولوی احمددین امرتسری یہ تمام علامہ صاحبان انگریز بہادرکی پیداوار ہیں اور ان کی معلومات میں انگریزی طریق ِ فکر کارفرماہے۔ جُنْدٌ مَا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزَابِ۔ مولوی عبداللہ بچارے ضرور قدیم وضع کےتھے تاہم اسلامی علوم کی تکمیل کا موقع ان کو بھی میسّر نہ آسکا نیز کچھ برتری کا شوق بھی ان کو دامن گیرتھا جوحالات کی نامساعدت کے سبب پورانہ ہوسکا۔ شیخ محمدچٹو صاحب کی تاجرانہ ذہنیت نے مولوی عبداللہ کو حسبِ منشا کام کا موقع ہی نہ دیا۔ یوں بھی مولوی عبداللہ بچارے کچھ زیادہ ذہین نہیں تھے الف لام اور تنوین سے جس طرح انہوں نے مسائل کشید کرنےکی کوشش کی وُہ اہل علم کی محفلوں میں مضحکہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ نحو کی اس منطق سے اہل زبان بھی یقیناً ناآشنا ہیں۔ ا س کے علاوہ ان کا ترجمہ اورتفسیر جن لوگوں کی نظرسے
Flag Counter