غلول کی نسبت کرتے، مختلف طور پر وُہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تنفّر پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔
رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا۔ منافق آپ کی خدمت میں آنے سے گھبراتے اور بدکتے ہیں لیکن دانش مند اور سلجھی ہوئی طبائع کی موجودگی میں اس ذہن کو اُبھرنے کی توفیق نہ مل سکی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان لوگوں کو کچھ کھل کر کہنے اور اجتماعی طور پر شرارت کرنے کا موقع ملا، اس کی تفصیل احادیث اور ادب کی کتابوں میں ملتی ہے۔
اس ذہن کی تنظیم:۔
لیکن دُوسری صدی میں معتزلہ کی وجہ سے اس ذہن نے ایک باقاعدہ اور اُصولی شکل اختیار کرلی۔ مگرخوارج اور یہ حضرات کھل کر حدیث کاانکار نہ کرسکے۔ فضائل اہل بیت کا انکار خوارج نے کیا۔ اوراحادیث صفات کا انکار حضرات معتزلہ نے کیا اورا حادیث مناقب کا انکار شیعہ نے کیا۔ اس کےعلاوہ یہ حضرات احادیث کا پوراپورااحترام کرتےتھے۔ معتزلہ فروع میں شیعہ ہیں، بعض حنفی اور شافعی۔ وہ اپنے اپنے اماموں کی طرح فروع میں احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ اسی طرح خوارج میں آج بھی حدیث پڑھی پڑھائی جاتی ہے۔ ا لجامع الصحیح کے نام سے حکومت مسقط کی طرف سے حدیث کی ایک کتاب خوارج میں موجود ہے جسے وہ بڑی عقیدت سے پڑھتے ہیں۔ خوارج کے اس جزوی انکار کا تذکرہ سنت کی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ اعتزال کی سرپرستی عباسی حکومُت نے کی۔ اس فتنہ نے قریباً دوسری صدی میں سر اٹھایا۔ ا س لیے انکار حدیث کےمتعلق یہ چور دروازہ قریباً دوسری صدی میں کھلا۔ ان کا زیادہ زور اُن احادیث پرتھا جو صفات باری تعالیٰ کےمتعلق ان کے مزعومات کےخلاف تھیں اور حدیث کےمتعلق اُن کےذوق کی ”سلامتی “کا یہ حال ہے کہ وہ متواتر احادیث کو بھی آحاد کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ نصوص قرآنیہ کی تاویل اس طرح کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے سن پائیں توانہیں حیرت ہو۔ ؎
ولےتاویل شاں درحیرت انداخت
خُدا وجبرئیل ومصطفےٰ را
آحاداشتباہ دوسری صدی کے شروع میں :۔
یہ لوگ قرون خیر میں تو موجود نہ
|