وغیرہ کی تفصیل آگئی۔ کسی نے صرف صحیح احادیث جمع کیں۔ بعض نے صحیح و ضعیف کا ملا جُلا ذخیرہ پیش فرمایا۔ بعض حضرات نےا ستدراک فرمایا۔ بعض نے صرف ایک مسلک کےادلہ جمع کردیے غرض اس فن میں انتہائی خوشنما تنوع کے بکھرے ہوئے پھول جمع ہوگئے۔
ائمہ حدیث میں سے اکثر فقیہ تھے، مسائل کے استنباط پر انہیں پوری قدرت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں اجتہاد کی تمام شرائط جمع فرمادی تھیں۔ انہوں نے بہترین تبویب کے ساتھ اپنی تصانیف کو علم کی منڈی میں لاکر رکھ دیا۔
دورترتیب:۔
اس تدوین کے ساتھ ترتیب کا مرحلہ بھی لازمی تھا۔ وہ آج تک علماء کی طبع آزمائی کے لیے ایک بہترین میدان ہے، اخلاق، ا موال، مغازی، معاشیات، طب، ادعیہ اربعینیات، خمینیات اجزاء وغیرہ کی صورت میں مجمُوعے مرتب ہوتے رہے پھر شروح حل لغات قواعد، تسوید رجال تمیز بین المختلطات، سند اجازت وجادہ، غرض مختلف انداز سے اُمّت نے اس فن کی خدمت کی۔ اس کےعلوم کو مرتب فرمایا ا ور اسے پوری زندگی کامشغلہ قراردیا۔ یہ عجیب سازش تھی جومقصد زندگی قرار پاگئی، راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ دُنیا کے مشاغل سب طاق نسیاں کی زینت ہوگئے۔ نہ اچھے کھانے کی خواہش نہ بہتر مکان کی تلاش نہ بادشاہوں کے درباروں سے رابطہ۔
عرصہ ہوا امرت سر کے رسالہ بیان القرآن میں ان بیچاروں پر یہ بھی الزام لگایا گیاکہ محدثین نے درباروں کامقاطعہ کرکے ملک کی خدمت کے بہترین مواقع ضائع کردیے۔
دراصل عیب چینی اور الزام تراشی سب سے سہل مشغلہ ہے۔ خصوصاً ان لوگوں پر جو صدیوں سے اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں اور اعتراض بھی وہ لوگ کریں جن کی اپنی زندگیاں خداشناسی، خداترسی سے تقریباً ناآشنا ہیں۔ اعمال صالح، اتباع سُنّت اور ورع و
|