موت نماخاموشی سےدیاگیا۔
یہ لوگ!
یہ گفتگو ان طویل مناظرات اور مجادلات کا ملحض ہے جو مولوی عبداللہ صاحب سے لے کر حضرت مولانا غلام احمد صاحب پرویز تک ان حضرات نے فرمائی جن میں شاید کوئی ذہین آدمی نہیں۔ اُصول کی تشکیل توبڑی بات ہے۔ عام فقہی فروع کا استنباط اور استخراج بھی ان حضرات کےفہم سے بالاہےیہ اعتراض توکرسکتےہیں مگرمصالح پرکلی اور جامع نظر کے بعد جزئیات کااستخراج اور قواعد کلیہ کی تشکیل کی استعداد ان کےخمیر میں نہیں ہے۔
جسٹس محمد شفیع صاحب بڑی اونچی اور مستند جگہ سے بولے تھےخیال تھا کوئی تعمیری اور کام کی چیز فرمائیں گے لیکن وہ غور فرمائیں کہ ان کے معاملات پرویز صاحب کی ترجمانی اور مولوی محّمد علی لاہوری کی نقالی سے زیادہ نہیں اور وہ بھی یک طرفہ۔ کاش وہ آئمہ سُنت اور ناقدین حدیث سے براہ راست کچھ سنتے پھر انہیں معلوم ہوتاکہ جو کچھ وہ چاہتےہیں وہاں بحمدللہ بُہت کچھ موجود ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور جو وہاں نہیں تجربہ آپ کوبتائے گا کہ اس کی ضرورت کسی دُوسری راہ سے پُوری کردی گئی ہے۔
وکم من عائب قولاصحیحاً
وآفته من الفھم السقیم
علم ِ حدیث متحرک علم ہے :۔
فن حدیث نےبتدریج ترقی کی اسی طرح اُس کے اصول میں بھی تدریجی ارتقاء پایا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ مراسیل کو حجت سمجھتے تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اسانید کے تتبع سے محسوس کیا کہ اس میں ضعف کا امکان ہے۔ صحابی کے بعد بعض اوقات کئی تابعی آجاتے ہیں اس لیے ضروری نہیں کہ تابعی کےبعد متروک راوی صرف صحابی ہو۔ علماء حدیث نے امام شافعی رحمہ اللہ کی اس نکتہ آفرینی کوقبول فرمایا اور مرسل کی حجیت سے انکارکردیا۔ حالانکہ امام مالک رحمہ اللہ حدیث میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فقہ میں سب کے تقریباً اُستاد تھے۔
|