اور سنتے سنتےکان پک گئے ہیں کہ :
”حدیث کو نئے اُصول کی روشنی میں تنقید کی سان پر ر کھنا چاہیے۔ “
یورپ کے مکتشفین کے کارخانوں میں احادیث کی تنقید کےلیے ہتھیار بن رہے ہیں ہم نصف صدی سے ان کے منتظر ہیں لیکن یہ بادل برستے نہیں تاحال ہم نے کوئی نیا ہتھیار نہیں دیکھا۔ ہمیں بتلایاگیاکہ حدیث قرآن کےخلاف نہیں ہونی چاہیے۔ عرض کیامنظور ہے لیکن قرآن کے مفہوم کی صحت کے لیے بھی معیار لائیے ممکن ہے کہ آپ کو پرکھنے کی تکلیف ہی نہ ہو۔ پھر یہ اصول قدماء آئمہ حدیث کے ہاں کتب حدیث میں موجُود ہے یانہیں۔ مشکل صرف یہ ہے کہ آپ کے ہاں قرآن فہمی کےلیے کوئی اصول اور معیار نہ تھااس لیے مسئلہ خلط مبحث سے آگے نہ بڑھ سکا۔
پھرفرمایا گیا۔ حدیث عقل کےخلاف نہ ہو، عرض کیابالکل درست ہے لیکن ہم نے صدیوں سے عقلاء کو ٹھوکریں کھاتے دیکھاہے، سارا علم منطق عقلاء کو ٹھوکروں سے بچانے کے لیے بنایاگیا لیکن وُہ علم خود ٹھوکروں کا محل اورکارخانہ قرار پایا اور ٹھوکریں ختم نہ ہوئیں۔ پھر جو معیار ہنوز کسی اور معیار کا محتاج اور منتظر ہے۔ اسے موقع دیجیے وہ اپنی تکمیل کرے۔ موجُودہ پوزیشن میں افراد کی عقل کوچھوڑئیے۔ مجموعی طور پر عقل جو کچھ کرسکتی ہے اس سے آئمہ سنت اور فقہائے حدیث نے کب انکار کیا۔ معلوم نہیں پھر آپ حضرات ناراض کیوں ہیں۔
دراصل ہماری معذرت یاترجمانی بھی آپ حضرات، منکرین حدیث اور ادارہ طُلوع اسلام سے سنتے ہیں اور اِن گونگے دانشوروں کا یہ حال یہ ہے کہ وہ آج تک نہیں سمجھاسکے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟ وہ آج تک جو کرسکے وہ سلب تھا اور تخریب۔ تعمیر اور ایجاب کے طور پر وُہ کیاکرپائے۔ آنکھیں اب تک اسی کی منتظر ہیں۔
فرمایاگیا حدیث کو متواتر کےخلاف نہیں ہوناچاہیے۔ گزارش کیاگیا منظور ہے لیکن واقعات کی صحت کے لیے آپ کے ریسرچ کی کسوٹی کیاہے؟اس کا جواب
|