Maktaba Wahhabi

34 - 191
مظنون چیزوں کواستناد کا مرتبہ دیاگیا ہے۔ محکمہ قضا شرعی احکام میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ ہر قاضی جوفیصلہ کرتاہے وہ صحیح ہی ہوتاہے۔ بددیانت قضاۃ کو چھوڑیئے۔ دیانت دار قاضی بھی معصوم نہیں ہوسکتا۔ بالکل ممکن ہے کہ وہ بڑی نیک نیتی سے فیصلہ کرےلیکن وہ واقعۃ ً صحیح نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بعض تم میں سے اپنا عندیہ بڑی فصاحت اور بلاغت سے بیان کرتے ہیں ان کےحق میں فیصلہ صادر کردیتاہوں لیکن واقعۃ ً وہ فیصلہ درست نہیں ہوتا اس لیے میرا یہ فیصلہ حرام کو حلال نہیں کرسکتا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فیصلوں کے متعلق یہ ارشادفرمائیں تویقین اور قطعیت کہاں سے آئے گی۔ شہادت:۔ محکمہ قضا کا تمام تر انحصار شہادت اور قرائن پر ہے لیکن ہمیں ہدایۃً معلوم ہے کہ شہادت غلط بھی ہوتی ہے۔ غلط فہمی پر بھی مبنی ہوسکتی ہے اس کی صحت بھی بہر کیف ظنی ہے اور اسی ظن ہی کی بناء پر تمام عدالتیں موجود ہیں۔ جوکام کررہی ہیں شرعی اور قانونی طور پر پوری عدلیہ کا انحصار شہادت پر ہے اور یہ از اوّل تا آخر ظنّی ہے۔ شہادت میں عدالت وغیرہ کی شروط عائد فرماکر اسی ظن میں ایک گونہ اعتماد کی کوشش کی گئی ہے۔ شوافع اور آئمہ حدیث نے ایک شہادت کے ساتھ یمین ( قسم ) کا اضافہ کرنےکافیصلہ فرمایاتھا کہ اس میں اس قدر رجحان پیدا ہوسکے جواسے ظن کے قریب لے آئے۔ فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا ( المائدہ) ”اگر سابقہ دونوں گواہوں پر گناہ ( جھوٹی شہادت ) کا شبہ ہوجائے تو دوسرے دوان کی جگہ کھڑے ہوجائیں۔ “ اھ اس آیت میں شہادت کے غلط ہونے اور اس کے امکان کا پتہ دیا گیا تھا۔ جب یہ امکان موجود ہے تو شہادت کی صداقت ظنی ہوجائے گی۔
Flag Counter