أَرَاكَ اللَّهُ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا(۴:۱۰۵)
کےفیصلے کرو اور اس سلسلہ میں خیانت پیشہ لوگوں کی حمایت مت کرو۔
۱۔ کتاب حق اتارنے کی علت حکم نبوی کوقراردیاہے۔ اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوفیصلہ کا حق نہ ہوتا اور فیصلہ قبول کرناضروری نہ ہوتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب اتارنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
۲۔ یہ فیصلہ بھی وحی ناطق سے نہیں ہوگا أَرَاكَ اللَّهُ میں یہ وضاحت فرمائی گئی کہ یہ فیصلہ سوچ بچار اور اجتہاد سے ہوگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رائے سےفرمائیں گے۔
۳۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدلیاگیاہے کہ وُہ کسی غلط آدمی کی حمایت نہ کریں گے۔
آیت میں معاملہ دوٹوک کردیاگیاہے۔ یاتوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول قرآن ہی کا انکار کردیاجائے یاپھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےاجتہادات کوبھی من جانب اللہ سمجھاجائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات محض تاریخی سرمایہ نہیں بلکہ واجب التعمیل احکام اور حقیقتِ ناطقہ ہیں۔ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ
ایک دھوکہ :۔
بعض منکرین سّنت نے بڑی عنایت فرمائی۔ و ُ ہ فرماتے کہ ہم احادیث کا انکار نہیں کرتے بلکہ یہ تاریخ کاایک قیمتی سرمایہ ہے اورمقدس دستاویز كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ مقامِ نبوت کو سمجھ لینے کے بعد اس کا مطلب انکار نبوت کےسواکچھ نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی توہین ہے۔ اس لفظی ملمع سازی کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامقام ابن ِ خلدون، ابن جریر، ابنِ کثیر اور دیگر مؤرخین کے پس وپیش ہوگا۔ بحث ونظر کی موشگافیاں نبوت کےماحول پر محیط ہوں گی۔ یہ مقام تمام علماء کا ہے بلکہ بحیثیت مؤرخ یورپ کےملاحدہ نے بہترین تاریخی سرمایہ علم کی منڈیوں میں بکھیرا ہے جواہلِ نظر کےلیے دعوتِ فکر کا سامان مہیّا کررہاہے۔
|