Maktaba Wahhabi

150 - 191
عربی قواعد اور شریعت کےضوابط اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےحالات کےمُطابق بحث کی جاتی ہے۔ “ اس درایت میں، ا ور جوروایت آج کل ہمارے بازار میں بک رہی ہے بڑ افرق ہے۔ مصطلح درایت میں علم ہے اور بصیرت ہے جب کہ ہمارے بازار کی درایت میں ذہنی آوارگی ہےا ور پریشان خیالی ہے، شریعت میں عموماً اور حدیث میں خصوصاً اس قسم کی بے قاعدگی اورآوارگی کو جگہ نہیں دی جانی چاہیے۔ سرسید احمدخاں مرحوم نے اسی درایت کےحوصلہ پر جھٹکے اور حلال کوبرابر کردیاتھا۔ و ہ دونوں کو حلال سمجھتے تھے۔ مولانامُودودی اور مولانا اصلاحی :۔ مولانااصلاحی اور مولانا مودودی کا سکول ِ فکر مولاناشبلی اور سرسید کے سکول ِ فکر سے ملتا جلتاہے۔ یہ حضرات بھی تفقہ اور درایت کے غائبانہ عاشق ہیں، مگر یہ ظاہر نہیں فرماتے کہ ان کے ہاں درایت کا کیامفہوم ہے، مولاناشبلی نے جب درایت کی بحث چھیڑی تو اہل حدیث نے ان کا اس طرح تعاقب فرمایا کہ اس بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہا، فقہاء اور محدثین کی خدمات کوپوری طرح واضح فرمایا۔ مولانا عبدالعزیز اسلم آبادی کی حسن البیان، مولانا ابویحیٰ شاہجہان پوری کی الارشاد اور مولانا عبدالسلام مبارک پوری کی سیرۃ البخاری میں یہ موضوع اس طرح چھان پھٹک کررکھ دیاگیاکہ آئندہ اس پر تفصیلاً لکھنے کی کسی کوجرأت نہ ہوسکی۔ مودودی صاحب نے ”دانشمندی “سے کام لیا، درایت کوگول مول کردیا، کچھ نےفرمایا کہ درایت سے ان کی کیامراد ہے اور وہ کون سے اصول ہیں جوفقہاء نے اس کے متعلق وضع فرمائے۔ البتہ محدثین پرتنقید فرماتے ہوئے ارشاد ہے :۔ ”وہ (محدثین ) زیادہ سےزیادہ یہی کہتےتھے کہ اس حدیث کی صحت کا ظن غالب ہے، مزید برآں یہ ظن ِ غالب جس بناء پر ان کوحاصل ہوتاتھا۔ و ہ بلحاظ روایت تھانہ بلحاظِ درایت، ان کا نقطہ نظر زیادہ تر اخباری ہوتا
Flag Counter